لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر آج ایک خط کی باری ہے جس
میں ہماری غلامی ،معاشرہ کی پستی ،اداروں کی تباہی سمیت چند تلخ حقائق ہیں جنھیں دور کیے بغیر ہماری نسلیں ہماری طرح غلام کمزور، کندہ ذہن ،سماجی اقدار،سے نابلد، علمی شعور سے بیگانہ ،عدم رواداری کی لعنت کو دورکیے بغیر ظلم جبر کے بھینٹ چڑھتے جائیں گے ۔
خط کو من وعن اس لیے شائع کیا جاریاہے کہ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جس میں ماسوائے قومی غداروں کے کسی کے ذات پر کیچڑ اچھالی گئی ہو بلکہ اس میں ہمیں وہ آئینہ دکھا ئی گئی ہے جس میں ہماری اچھائی، برائی وہ سب دکھائی دیتے ہیں جو ہم سے گزشتہ ستہتر اٹہتر سالوں سے اوجھل تھے جنھیں ہم نہیں دیکھ سکتے تھے ۔
محترم سمیر جیئند بلوچ السلام علیکم
آج بلوچستان کے ہر کونے میں ماں بہن بھائیوں کی چیخ پکار ہے ، کسی کا بیٹا ، شوہر ،بھائی ،بیوی،لاپتہ ہے تو کسی کی مسلخ نعش بے گورو کفن پڑی ہے ۔ کسی کے چھاپہ کے نام پر اشیاء خوردونوش ،گھر کے زیورات لوٹ لیے گئے ہیں ،تو کسی کا جمع پونجی مال مویشی آپریشن کے نام پر فورسز ٹرکوں میں بھر بھر کر لے گئے ہیں ۔ یہاں کسی کے گھر،تعلیمی ادارے ،مسجد ،مندر ،گرجاگھر وں کو امن امان بحالی کے نام پر فورسز قبضہ کرکے کیمپ یا چوکی میں تبدیل کر رہے ہیں تو کسی کے املاک کو بلڈوز کیا جارہاہے۔
سوال کرنے پوچھنے پر جواب میں وہی ایک رٹہ رٹائی بات واپس مکھی کی طرح منہ سے ٹکراجاتاہے کہ امن امان کو کنٹرول ،دہشت گردی کو ختم کرنے ملک دشمن عناصر کو نیست نابود کرنے کیلے یہ لازمی ہے اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے ۔
وہ خود بھول جاتے ہیں کہ اگر جنگ میں ہر چیز جائز ہے تو وہ جو کر رہے ہیں وہ کیوں جائز نہیں ہے ۔ جس دہشت گرد ی کی بات کر رہے ہیں وہ ہم سے پھر بھی بہتر ہیں کیوں کہ وہ صرف اور صرف
اپنے دشمن جو بندوق بردار ، مخصوص وردی ، مخصوص جگہ کیمپ چھاونی چوکی ناکہ ،یا قافلہ کی صورت میں وسائل لوٹنے زمین قبضہ کرنے کیلے اس کے آباو اجداد کی زمین پر حرکت کررہاہے اسے یہاں سے بھگانے کیلے بندوق، یا قلم اٹھایا ہواہے ۔
اس کے مقابلے میں ہم عام شہریوں کا مختلف طریقوں سے جینا حرام کر ر ہےہیں۔ جس کا مطلب دہشت گرد وہ نہیں ہم خود ہیں کیوں کہ ہم انکے زبان کلچر ،تہذیب،سماج سے نہ قربت رکھتے ہیں نہی وہ زمین ہمارا ہے جس کے نام پر خون خرابہ کر کے اودھم مچا رکھا ہے ۔
محترم میری اصل مدعا یہ ہے کہ ہماری غلامی کے اسباب کیاہیں جو دن بدن طول پکڑتےجارہے ہیں ، اس کیلے سب سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا کہ وہ کونسی کمزوریاں ہیں جن سے قابض فائدہ اٹھاکر مالک بنا بیٹھا ہے اور جو مالک ہے وہ چوکیداری کرنے لائق بھی نہیں رہا ہے۔ اور وہ وسائل کے مالک ہونے باوجود خیرات پر کیوں پل رہے ہیں،وہ بھائی کا خون اغیار کیلے کیوں پانی کی طرح بہانے سے شرم محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
ہم یہاں رسی کہیں سے بھی اپنے لیے کھینچ لیں وہ قابض پر آکر ٹک جاتاہے کہ انھیں کی کرم نوازیاں ہیں جنھیں نے ہمیں اتنا جاہل گنوار بنا رکھا ہے کہ ہم ماں باپ ہیں تو بچوں کیلے اپنے فرائض سے بیگانہ ہیں ، ہم بچے پر بچے جانوروں کی طرح پیدا ٹوکرتے جارہے ہیں مگر ہم اس چیز سے بے خبر ہیں کہ اس کی پوشاک خوراک ،تعلیم سماجی پرورش میری ذمہداری ہے ۔ اس بارے نہیں سوچتے جس کی وجہ سے ہم مالی تنگی دستی کے باعث بچوں کو اسکول کے بجائے مدرسہ دھکیل دیتے ہیں تاکہ اس کا خوراک اور تعلیمی اخراجات سے میری جان چھوٹ سکے، لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ وہاں جاکر اپنے سے بارہ پندرہ سالہ بچے سے اپنا دفاع کرسکے جو اس سے پہلے مدرسہ میں جاکر ،سب کچھ گنوا بیٹھا ہے ،کیوں کہ وہ اتنا کم عمر ہے کہ وہ بغیر ماں باپ بہن بھائی کی انگلی پکڑے بنا چل نہیں سکتا تھا ۔نتیجے میں وہی بچے جہاں ان کا سب کچھ لٹ جاتاہے وہ شفیق محمد زئی عطاء الرحمن محمد زئی ،رمضان مینگل جیسے وحشی مذہبی جنونی بن جاتے ہیں ۔ پھر وہ اپنوں کا نہیں ان کا بھلا سوچتےہیں جنھوں نے انھیں ہر حوالے سے مٹھی میں بند کر لیا ہوتا ہے ۔
کچھ والدین بچوں کو خیراتی اسکول بھیج دیتے ہیں یہاں بھی بنیادی وجہ مالی تنگ دستی ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ قابض جس مقصد کیلے اسکول بنا دیئے ہیں وہ ہمیں شعور دینے کیلے نہیں بلکہ ہماری بربادی کیلے بنائے گئے ہیں ،ویاں وہ سب پڑھایا جاتاہے جو قابض کا ہے ،زبان، تاریخ ،کردار سب انکے ہوتے ہیں آپ غلام کے بارے میں کچھ نہیں ہے آپ کا ہیرو کون تھا وہ وہاں نہیں ملے گا آپ کی تاریخ ،روایات کیاتھے کیا ہیں وہ پنجابی اسکول کے سلیبس میں نہیں ملیں گے، حتی کہ جس زبان میں تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی آپ کے مادری زبان میں نہیں انکے مادری زبان یا ان کے آقاوں کی مادری زبان ہے ۔
دوسری طرف پڑھانے والے 98 فیصد استاد تو نہیں جلاد کہہ سکتے ہیں وہ استاد کم بدمعاش زیادہ لگتے ہیں علم تو نہیں دے سکتے البتہ قابض کی رٹائی ہوئی چیزیں آپ کے گلےمیں رٹے کی شکل میں ضرور لٹکا دیتے ہیں اس کے علاوہ گٹکہ سگریٹ نوشی جیسے دیگر برائیاں بچوں کو عطاء ضرور کرتے ہیں کیوں کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس دوران ان کا آئیڈیل ان کا اسکول استاد ہوتا ہے وہی عادات کو اپنا تےہیں جو استاد اسکے سامنے کررہاہوتاہے ۔ گستاخی معاف قابض ریاست میں استاد وہ بنتے ہیں جنھیں کہیں کسی بھی دوسرے ادارے میں رشوت ہی سہی نوکری نہیں ملتی ہے ، اگر غلطی سے کوئی استاد بننے لائق ہے تو اسے بھاری رشوت دیکر بھرتی ہونا پڑتاہے۔اگر وہ بھرتی بھی ہوجائے تو پڑھانا اسے وہی ہے جو قابض نے سلیبس میں ترتیب دیا ہے ۔ وہ مکمل پڑھنے سے اور ایسے حالات میں یہاں سے (تعلیم تو نہیں ) ڈگری لیکر نکلنے والے ڈیتھ اسکوائڈ سرغنہ سرفراز بگٹی ، وزیر اعلی سردار ثناء اللہ ،قدوس بزنجو اسمبلی کے ممبر،عبدالرحمن کھیتران ظہور بلیدی جیسے حیوان بن کر نکلتے ہیں ۔
بات جامعات کی جائے تو یہ کہاوت یاد آتی ہے جو بوو گے وہی کاٹو گے ،اسکول ،مدرسہ، کالج میں جو بویا تھا وہی یہاں پھر پروفیسر ، پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی شکل میں کرسیوں پر پراجما ملتے ہیں ، انھیں تعلیم سےدوستی نہیں بھاری تنخواہ چاہئے جنتا قوم جائے بھاڑ میں ،جامعہ کے گرلز ہاسٹل ،سمیت کیمپس میں خفیہ کیمرہ کہیں لگائیں جامعہ کو بھلے چھاونی بنائیں چانسلر بھلے میٹرک پاس جنرل ہو انھیں اعتراض نہیں ہے ۔
بقول ایک سابقہ پروفیسر جامعہ میں اگر کسی طالبہ کا عزت حیاء پرکھنا ہو تو بھلے وہ دن رات ایک کرکے کسی باہر کے ملک سے پڑھ کر آئی ہو یہاں جبتک وہ کسی پروفیسر ،پی ایچ ڈی ڈاکٹر جس کا تعلق چاہئے کسی قوم پرست جماعت پارٹی ،قوم سے کیوں نہ ہو ایک رات نہیں گزارتی ہو اس کی تھیسس سائن نہیں ہوتی ہے ۔ ہاں اگر کسی طالبہ کا نہیں ہوا تو سمجھ لیں کہ اس نے عزت نہیں بیچی ہے ۔ یہ الزام نہیں حقیقت ہے مذکورہ پروفیسر زندہ سلامت ہیں اللہ صحت دے اگر انھیں اعتراض ہے اس بات پر تو ہم گنہگار ہیں ۔ اس کے بعد تو الفاظ نہیں ہیں بچتے کہ ہم اپنی قومی تباہی کا رونا رونے کیلے لکھ کر روئیں، اور کیا کہیں کہ قابض نے کونسا جگہ چھوڑا ہے وہاں سے ہم اچھی واپسی کی ابتدا کرسکتے ہیں ۔
ہاں اس ادارے سے ہمارے قومی معمار ڈگری لیکر
ہمارے سرمایہ یاستدان ،استاد ،وکیل ،ڈاکٹر
،صحافی ،بینکر ،سماجی شخصیات ،دانشور ،ادیب غرض دیگر شعبوں کے نام نہاد ماہر بن کر ضرور نکلتے ہیں ۔
آپ اندازہ لگائیں ان میں کتنے فیصد طلباء لیڈر یا افسر نکلے ہونگے جو ہر وقت اپنی جیب سے ،جامعہ میں میس کا بل ،گھرمیں بجلی کا بل ،گھر کے اخراجات ، بغیر کرپشن ادا کر رہے ہوں گے ،یا وہ کونسا سیاسی ، سماجی ادارہ ہوگا ،جو عوامی چندہ کا استعمال سہی جگہ پر کر رہا ہوگا ؟
وہ کونسی عدالت ہوگی جو فوجی بوٹ کو پاوں تلے روند کر آزادانہ فیصلہ کرکے عوام کو انصاف فراہم کیا ہوگا ۔
کونسا پولیس تھانہ ہوگا جہاں ،جوئے،قحبہ خانے،چوری ،ڈاکہ ،رہزنی اغوا برائے تاوان ،منشیات فروشی ، سٹریٹ کرائم جیسے دیگر سماجی برائیوں کی سرپرستی نہیں کررہا ہوگا ۔
وہ کونسی سیاسی پارٹیاں ہوں گے جو رواداری کو عام کرنے علاوہ اپنے گھر، خاندان ، سے نکل کر سب کے بارے بلاجھجھک زبان ،طبقہ کو بالائے تاک رکھ کر سوچیں گے ، اور ہر ایک، ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچنے میں مصروف نہیں اور نہی دشمن کو چھوڑ کر ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں گے۔
آج ہماری سماج میں تنگ نظری کی بیج اتنی بوئی گئی ہے کہ پارلیمان پرست کا کارکن غیر پارلیمانی پرست کارکن سے بیٹھ کر بحث مباحثہ نہیں کرسکتا ، مذہبی سیکولر کے ساتھ کسی مدعے پر بیٹھنے کیلے تیار ہے ۔ زبان طبقہ کے نام پر نفرت کو ہوا دی جارہی ہے ۔
دشمن کے ہاتھوں گرائے گئے کسی نوجوان کے نعش کو کندھا دینے کیلے ہمارے پاس وقت نہیں اگر وقت ہے تو وہاں بھی ہیرو بننے کے شوق میں اتنے مگن ہیں کہ اپنی علمی ،سیاسی ،حیثیت اتنے بھول گئے ہیں کہ جو ساتھ ہے وہ مجھ سے ہر حوالے سے لائق ہے لیکن میں اسکے کاندھے سے کاندھا ملاکر چلنے کو تیار اس لیے نہیں کہ وہ میری تنظیم پارٹی کا ممبر نہیں ہے ،اگر یہاں نعش پر بھی ہم متفق نہیں ہیں تو کب ہونگے ۔ الغرض ہر کوئی نرگسیت کا شکار ہے کہ تاج کا مالک میں ہوں بھلے آگے پیچھے دس کارکن ممبر نہ ہوں لیکن سامنے والا حقیر ہے ۔
کیا قومیں اور ادارے ایسے ہی سماج کو ترقی دیتے ہیں ؟
محترم آپ کا وقت نہیں لینا چاہتی اگر یہ بے ترتیب کلمات میڈیا میں جگہ پائیں تو بلوچستان کی دکھی بیٹی ،جس کی شوہر مالی تنگ دستی سبب آنکھوں کی علاج سے معذور ہے ، وہ بیٹی جس کی باپ جعلی مقابلے میں عدالت سامنے ھلاک کیاگیا ہے ۔ وہ بہن جس کی بھائی دو دہائی سے لاپتہ ہے ،وہ بیوی جس کی عزت دشمن فوج نے تار تار کردی ہے۔ وہ قوم کی بیٹی جو روڈوں پر اپنوں کی تلاش کیلے بیں بیں کرتی پھر رہی ہے۔ اس کی جواب آپ سب اپنی گریبان جھانک ضرور دیں اور یہ بھی جواب دیں کیا یہاں مردوں کے علاوہ زندہ لوگوں کی قدر کبھی کی جائے گی جس کے وہ مستحق ہیں؟
فقط گلزمین کی بیٹی ا ، ر بلوچ