ہوشاپ تینوں نوجوانوں کے جسموں پر بم نہیں گولیوں کے نشانات ہیں ۔ بی این اے، جبری گمشدہ افراد کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔ ڈی ایچ آر، سی ٹی ڈی ریاست کی پشت پناہی میں بلوچ قوم کی نسل کُشی کر رہی ہے – بی وائی سی اسلام آباد


بلوچستان نیشنل الائنس کے ترجمان نے کہا ہے کہ پچھلے دنوں ہوشاب کے علاقے میں تین بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں جن کے جسم پر گولیوں کے نشانات تھے یہ تینوں نوجوان عادل عصا ، شاہجہاں عصا اور نبی داد ولد لواری ہوشاب کے رہائشی تھے۔ کیچ پولیس کا بیان ہے کہ یہ لوگ ایک گاڈی میں جارہے تھے کہ گاڑی ایک روڈ سائیڈ بمب بلاسٹ کا شکار ہوا اور یہ نوجوان اس بلاسٹ کے نتیجے میں مارے گئے ہیں لیکن بمب بلاسٹ کے کوئی شواہد نہیں ملے اور نا بمب میں تباہ ہونے والا گاڈی دستیاب ہوا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان تینوں شہدا کے لواحقین کا دعویٰ ہے کہ ان افراد کو رواں سال اگست میں مسلح سرکاری اہلکاروں نے اٹھایا تھا اور یہ تینوں نوجوان اگست سے ہی


سرکار کی تحویل میں رہے ہیں۔ اس دوران ان کے لواحقین کو نہ ان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی اور نہ ہی ان نوجوانوں کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوشاب کے ہی علاقے کے چار اور بھی نوجوان اسی طرح گرفتار ہوئے اور وہ بھی ابھی تک لاپتہ ہیں۔

بلوچستان نیشنل الائنس اس طرح کے ماورائے عدالت گرفتاریوں اور قتل کی شدید الفاظ میں مزمت کرتی ہے اور حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس طرح کے بیہمانہ قتل کی تحقیقات کی جائے اور سرکاری اداروں کے اس واقعہ کے زمہ دار اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

بلوچستان نیشنل الائنس ان تینوں شہدا کے لواحقین کی داد رسی کا مطالبہ کرتی ہے، اور سمجھتی ہے کہ بلوچستان میں ماورائے عدالت ، گرفتاری ،اغوا اور قتل کی پالیسی مسلمہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں ، اور اس طرح کی پالیسیاں بلوچ عوام اور حاکم قوتوں کے درمیان نفرت اور بداعتمادی کو بڑھاوا دے گی جن سے بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے اور جسکی زمہ داری حکومت اور ان کے ایسے کارندوں پر عائد ہوتی ہے جو اسی طرح غیرانسانی ،غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔


اس طرح ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ مطالبہ کیا ہے کہ تمام جبری گمشدہ افراد کو جلد از جلد رہا کیا جائے،اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں آئین و قانون کے مطابق عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے۔

یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے اس انتہائی اہم مسئلے کے حل کیلئے فوری اقدام ناگزیر ہے، اسے کسی صورت حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کسی کو قصور بتائے بغیر غائب کر دیا جائے اور ورثاء کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جائے،لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کر کے وطن عزیز سے ایسی کہانیوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جائے۔

ڈی ایچ آر اور جبری گمشدہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد ڈی چوک پر پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا،جس میں جبری گمشدہ افراد کی ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیویوں نے برس ہا برس سے جبری گمشدہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

ورثاء نے یہ عہد کیا کہ ہم زندگی کی آخری سانس تک اپنے پیاروں کو نہیں بھولیں گے اور ان کی بازیابی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔

پاکستان میں جبری گمشدگی کے مقدمات میں ورثاء ایک مدت سے انصاف کے متلاشی ہیں،اعلی عدالتوں اور کمیشن کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں،ہر بارگاہ انصاف کی زنجیر عدل ہلا چکے ہیں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ،یہ عدالتیں اور کمیشن متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کیس کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2005 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا، 26 اکتوبر 2018 تک عدالت عظمیٰ میں لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت چلتی رہی مگر 2018 میں تمام مقدمات سپریم کورٹ سے خارج کر کے کمیشن آف انکوائری کو منتقل کر دیئے گئے،بعدازاں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں مگر سپریم کورٹ نے ان مقدمات کی سماعت شروع نہیں کی۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے نو اکتوبر 2023 کو ایک نئی درخواست دائر کی ہے لیکن ابھی تاحال اس پر سماعت نہیں ہوئی۔

بتایا گیا کہ پاکستان میں سالہا سال سے یہ مسئلہ حل طلب ہے،متعدد کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن ان کا نتیجہ صفر نکلا ہے،سابق وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور سابق ممبر پارلیمنٹ سردار اختر مینگل کی سربراہی میں بھی ایک ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،کمیٹیوں نے لاپتہ افراد کے ورثاء،سول سوسائٹی کے نمائندوں،وکلا کے ساتھ رابطے کئے اور مشاورت سے سفارشات مرتب کیں لیکن تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں،کمیٹیوں کی تشکیل سراسر وقت اور وسائل کا ضیاع تھا۔اب موجودہ وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں پھر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے،ماضی کے تجربات کی روشنی اس کا مقصد بھی عوام کو بیوقوف بنانا اور معاملے کو مزید سرد خانے کی نذر کرنا لگتا ہے۔

مزید کہا گیا کہ اب جب عالمی نظام میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، ہم متاثرین اب بھی تشدد، ناانصافی اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں حالانکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم ہو چکی ہے۔ قدرتی آفات اور جاری معاشی بحران اور تباہی نے پاکستانیوں کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے، اس لیے جبری گمشدگیوں کے متاثرین کو سچائی، انصاف اور معاوضے کی فراہمی کے لیے غور و فکر کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے تمام لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد ہمارے پیاروں کو رہا کیا جائے, اگر ان پر اوپر کوئی الزام ہے تو انہیں آئین اور قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے، فیئر ٹرائل کا موقع دیا جائے ، تمام جبری گم شدہ افراد جن کو زیر زمین خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، انہیں باعزت طور پر رہا کر کے ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ حکام، نگران حکومت اور عدلیہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ خفیہ حراستی مراکز کو بند کیا جائے، تاکہ یہ لوگ بھی آذادی کی نعمت سے فیضیاب ہو سکیں، آئین کے محافظ اور پاکستان کے شہریوں کے انسانی حقوق، آزادیوں اور آزادی کے محافظ کے طور پر سامنے آنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ کے سامنے ڈی ایچ آر کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے لاپتہ افراد کے ورثاء کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان مظلوموں کو بلا تاخیر انصاف فراہم کرینگے۔

ان کا کہنا کہ گلہ شکوہ اسی سے ہوتا ہے جس سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، ہمیں تئیس سال سے انصاف نہیں ملا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ ہے کہ لاپتہ مقدمات کی فوری سماعت شروع کریں۔

انہوں نے استدعا کی کہ کمیشن کو بند کیا جائے، لواحقین اور ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جائے اور سچائی اور مصالحت کمیشن بھی تشکیل دیا جائے جس میں ورثا کو حقائق سے آگاہ کیا جائے اور اگر کسی کا پیارا دنیا میں نہیں رہا تو بین الاقوامی معیار کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کی دست درازی کو روکا جائے، تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جائے۔

دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی، اسلام آباد نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ریاست نے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) جیسا بدنامِ زمانہ اور جنایت کار ادارہ بلوچ قوم کے اوپر مسلط کیا ہے جو آئے دن بلوچ وطن پر خون کی ہولی کھیلتا رہتا ہے جس کے بنانے کا بنیادی مقصد بلوچوں کی ایک طرح کی اداراتی صورت میں نسل کُشی کرنا ہے کیونکہ سی ٹی ڈی سے قبل جو کام فوج اور پولیس وقتاً فوقتاً انجام دے رہے تھے وہی سب کچھ اب سی ٹی ڈی کر رہی ہے لیکن اب ریاست نے ایک خاص ادارہ تشکیل دے کر اور اس کو مالی و افرادی قوت دے کر بے لگام آدم خور کی طرح بلوچ سرزمین پر چھوڑ دیا ہے اور یہ آدم خور ادارہ ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ انجام دے رہا ہے اور بلوچ کا خون اتنا سستا ہوگیا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، ریاست اور اس کے پیداکردہ لوگ اور ادارے نِت نئے حربوں سے بلوچ کی نسل کشی کررہے ہیں۔ فیک انکاؤنٹر اسی تسلسل کی ایک شکل ہے جو ریاستی اداروں نے اپنائی ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ حالیہ سانحہ خضدار جس میں تین افراد کو جعلی مقابلے میں نشانہ بنایا گیا، ان تین افراد کا نام پہلے سے ہی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا، لیکن ریاستی دہشتگرد ادارہ نے ان افراد کو دہشگرد ظاہر کیا، حالانکہ یہ تین افراد پہلے سے ہی جبری گمشدہ تھے۔ جبراً لاپتہ افراد کو بے دردی سے مارنا اور ان کی لاشیں پھینکنا اس سے ریاست اپنے جرائم کو چھپانا چاہتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح گذشتہ روز کا جو واقعہ بالگتر (ہوشاپ) تربت کے نواحی علاقے میں ہوا ہے کہ جس میں تین افراد جعلی مقابلے میں شہید کیے گئے ہیں۔ پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ان افراد کی بمب دھماکے میں ہلاکت کے طورپر ظاہر کرنا جنگی جرائم چھپانے کے مترادف ہے۔ ان میں سے ایک کی شناخت عادل ولد عصاء اور دوسرے کی نبی بخش ولد جان محمد کے نام سے ہوئی ہے، یہ دونوں افراد وہ ہیں جنہیں گذشتہ اگست کے ماہ میں ریاستی فورسز نے تربت سے لاپتہ کیا اور گذشتہ رات ان کو جعلی انکاؤنٹر میں شہید کر دیا گیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان اس وقت ایک عظیم انسانی سانحہ سے گزر رہا ہے جہاں پر کسی بھی انسان کی جان و مال اور عزت ِنفس محفوظ نہیں ہے، کوئی قانون نام کی شے وجود نہیں رکھتی، جہاں پر ریاستی اسکواڈ بے لگام ہیں اور ہر گھر و خاندان کے افراد کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاست اس انسانی سانحے کے متعلق بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے بلکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ بیہودہ قسم کا مذاق کر رہی ہے کہ جسکا تازہ ثبوت سرفراز بگٹی نامی بدنامِ زمانہ “جلاد” کو لاپتہ افراد کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنا جبری طور پر لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ایک مذاق ہے، کیونکہ سرفراز بگٹی کی شخصیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اسی فرد نے اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی میں ہی کتنے بلوچوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے اور یہی فرد اب لاپتہ افراد کے لئے بنائے گئے ادارہ کی سربراہی کرے گا۔ یہ ریاست کی غیر انسانی پالیسیوں کو آشکارہ کرتی ہے کہ وہ کس حد تک اس عظیم انسانی سانحہ کی نسبت سنجیدہ ہے۔

ترجمان کا آخر میں کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا جو کہ جانبدار کم اور ریاستی میڈیا زیادہ ہے، وہ بھی ان سانحات کو مین اسٹریم میڈیا پر نہیں لا رہی، کیونکہ ان کو حکم کی تعمیل کرنے کو کہا جاتا ہے لہٰذا ہم عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان انسانی سانحات پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور اپنی حیثیت اور کردار کے مطابق اس ظلم کا سدِباب کریں اور ہم بلوچ قوم کو بھی یہی پیغام دیں گے کہ خدارا اپنی حالت کو پہچانیں اور اس نسل کُشی کے خلاف متحد ہو جائیں جیسے ریاستی ادارے بلوچ نسل کُشی کے لئے متحد ہیں


Post a Comment

Previous Post Next Post