بلوچ وومن فورم کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ ریاست ایک دہائی سے بلوچ نسل کشی میں مصروفِ عمل ہے، جس طرح سے ریاست نئے پالیسیز اور طریقے کار کو بلوچ نسل کشی میں متعارف کرارہاہے ،شاید دنیا میں کہیں بھی اسکی مثال نہ ملے۔ دنیاکے جنگی خطوں میں دیکھا گیا ہے جنگی و سیاسی قیدیوں کے ساتھ اخلاقی رویہ اختیار کیا جاتا ہے ،حَتّی الوسع پیمانے پرکوشش کی جاتی ہےکہ عام لوگوں کو محفوظ رکھاجائے، لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں عام اور بے گناہ لوگوں کو ماورائے عدالت اغواکرکے ، اپنے نئے تجربوں کے ساتھ انکی نعشیں پھینکی جاتی ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ کیچ میں جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے نوجوان بالاچ بلوچ ، سیف اللّہ اور شکور بلوچ پہلے سے ہی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے، بالاچ بلوچ ولد مولابخش کو 29 اکتوبرکی رات ان کے گھر سے سی ٹی ڈی والے جبراً اغواکرکے لےگئے تھے ۔ لاپتہ ہونے کے بعد لواحقین کی جانب سے بھرپور احتجاج اور سوشل میڈیا کمپئین کے سبب متعلقہ ادارے پریشر میں آ کر انھیں عدالت میں پیش کیاگیا، جہاں عدالت نے اُنہیں دس روزہ جسمانی ریمانڈ کےلیے جیل بیھجا ، جسکے چشمِ دید گواہ عدالتی جج صاحب خود ہیں۔ لیکن معلوم پڑتاہیکہ سی ٹی ڈی ریاستی عدالت، قانون و آئین سے کہیں زیادہ بااثر ہیکہ جنہیں عدالتی فیصلہ بھی قابو نہیں کرسکتے۔ پچھلے دنوں بالگتر سے تعلق رکھنے والے تین نوجوان عادل عصاء ، شاہجان عصاء اور نبی بخش جن کا بھی شمار لاپتہ افراد کی فہرست میں تھا انہیں پہلے اپنے ٹارچرسیلوں میں گولی مارکر شہید کر دیا گیا پھر اُنکی نعشوں کو بارود سی بھری گاڑی میں رکھ کر بم بلاسٹ کا نام دیا گیا جو کہ عالمی دنیا اور قوموں کو گمراہ کرنے کی ایک نہی اسٹریٹجی ہے جس سے بلوچ عوام بہ خوبی واقف ہیں۔
ترجمان نے بیان زریعے بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ تربت فداچوک پر دھرنا دیئےبالاچ شہید کے لواحقین اور اُنکے جسدخاکی کی مزاحمتی تحریک کا حصہ بنیں۔
انھوں نے کہاہے کہ آج تربت کے باشعور لوگوں پر قومی زمہداری عائد ہوتی ہیکہ ریاستی جبر و ظلم کو آشکار کرنے کے لیے اس مزاحمت و احتجاج کو مزید توانائی دیں ۔یہ مزاحمت ہی ہماری بقاء کی ضامن ہے۔بلوچستان میں ریاستی اِداروں نے اِنسانی تاریخ میں درندگی،جبر ، ظلم و وحشت کی تاریخ رقم کی ہے ۔ یاد رکھے اِس کرب زدہ سماج میں ہماری خاموشی بھی تاریخ کےاول صفحات میں رقم ہوگی ۔