بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کے قتل کیخلاف نعش رکھ کر دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا خواتین و حضرات نے احتجاجی ریلی نکالی ۔ جس کی قیادت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کی۔جبکہ ریلی میں سیاسی و سماجی تنظیموں اور کارکناں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے دی گئی کال پر آج دوسرے روز بھی تربت بھر میں سی ٹی ڈی کی جعلی مقابلوں اور قتل و غارت گری کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے اور تمام تجارتی مراکز بند ہیں۔
احتجاجی ریلی شہید فدا چوک سے شروع ہوئی اور شہر کے مختلف شاہراوں پر مارچ کر تے رہے۔
ریلی میں خواتین و بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود رہی جوپاکستانی فورسز کی غیر انسانی و نسل کش پالیسیوں کیخلاف شدید نعرے بازی کر تے رہے ۔
ریلی کے شرکا کا کہنا ہے کہ جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا احتجاج کا سلسلہ بلوچستان بھر میں وسیع کیا جائے گا۔ دھرناو ریلی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مقتولین کے قتل کا مقدمہ سی ٹی ڈی کے خلاف درج کی جائے اور جوڈیشل انکوائری کمیشن کے ذریعے فیک انکاؤنٹرز کی تحقیقات کی جائے۔جبکہ لاپتہ افراد کے جعلی مقابلوں میں قتل کا گھنائونا اور انسانیت سوز عمل روکاجائے۔
آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ دنوں 22نومبر کی رات سی ٹی ڈی نے تربت کے علاقے بانک چڑھائی پر ایک جعلی مقابلے میں 4افراد کو قتل کرکے 23 نومبر کو ان کی نعشیں تربت ٹیچنگ ہسپتال منتقل کردیئے اور دعویٰ کیا کہ ایک مقابلے میں مذکورہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حسب معمول قتل کئے گئے چاروں افراد کی شناخت لاپتہ افراد کے طورپر ہوگئی اور جن میں بالاچ نامی ایک نوجوان کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے سے دو دن پہلے عدالت میں بھی پیش کیا گیا ۔
سی ٹی ڈی کے مذکورہ جعلی کارروائی اور لاپتہ افراد کے قتل کے واقعہ کے بعدبالاچ کے لواحقین نے بالاچ کی میت شہر کے شہید فداچوک میں رکھ کر دھرنے کا آغاز کیا جو آج تیسرے روز بھی جاری ہے ۔