پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں میں اضافے اور جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے خلاف اتوار کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے زیراہتمام مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں لاپتہ افراد کے لواحقین، سیاسی تنظیموں کے ارکان سمیت طلباء نے شرکت کی اور لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بلوچستان میں “سی ٹی ڈی “ کی جانب سے جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا-
مقررین نے کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسلسل بھڑتے واقعات اور ان لاپتہ افراد کی جعلی پولیس مقابلوں قتل کے واقعات کو روک کر کے انھیں فوری طور پر بازیاب کیا جائے-
ا نھوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں مین مارنا ریاستی اداروں کا پرانا ہتھکنڈہ ہے جس کو ریاست نے متعدد بار استعمال کرکے لاپتہ افراد کو اس طرح مار تا آرہاہے ،جن لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں مارا گیا ان کے نام بلوچ لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس درج تھے-
انہوں نے مزید کہاکہ حالیہ دنوں خضدار میں سی ٹی ڈی نے جن تین افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا ان میں سے ایک کی شناخت آفتاب سمالانی کےنام سے ہوئی جہنیں رواں سال 11 اگست کو ہزار گنجی کوئٹہ سےفورسز نے جبری لاپتہ کیا تھا جن کی جبری گمشدگی کی اطلاع انکے لواحقین نے پہلے ہی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس جمع کرائی اور تنظیم نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن کو فراہم بھی کیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی خضدار مقابلے میں جاں بحق عبداللہ زہری بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جاری ریاستی کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ کے ذریعے پریشرائز کرکے ختم کیا جائے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے۔
احتجاج میں شریک بی ایس او آزاد کے جبری لاپتہ رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم زندہ ہونے کے ڈھونگ میں ایک جنگ لڑ رہے ہیں کہ شاید انہیں زندہ لے آئیں جو زندہ ہماری آنکھوں کے سامنے گھسیٹتے ہوئے اٹھائے گئے تھے ۔ انھوں نے کہاکہ لوگوں کو زندہ اٹھا کر بعد ازاں جعلی مقابلے میں مار کر مسخ شدہ نعش پھینکنا اور بنا عدالتی بیان اور بنا ثبوت کے اس نعش پر مسلح ہونے کا الزام لگادینا کہاں کا انصاف ہے-
کراچی احتجاجی ریلی میں بلوچستان سے دیگر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے بھی شرکت کی اور کہاکہ وہ سالوں سے لاپتہ پیاروں کے واپسی کی منتظر ہیں ، جب بھی کسی جعلی مقابلے کا سنتے ہیں تو یہی لگتا ہے ہمارا اپنا کوئی پیارا ہوگا البتہ وہی ہوتا ہے کسی لاپتہ نوجوان کو قتل کردیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھ رہاہے-