بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہوشاپ کے علاقے بالگترمیں 3 لاپتہ نوجوانوں کے قتل میں پاکستانی فوج کے آلہ کار خالد یعقوب کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایک ہی خاندان کے تین جبری لاپتہ نوجوانوں کو پاکستانی فوج نے ھوشاپ میں گاڑی میں بٹھا کر بارودی دھماکے کے ذریعے قتل کردیا۔اس قتل کے بعد پولیس کے ذریعے یہ کہانی گھڑی گئی کہ سڑک کے کنارے بم دھماکے کے نتیجے میں تین نوجوانوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
پاکستانی فوج کے اس ظالمانہ عمل کے فوری بعد بلوچستان کی سول سوسوسائٹی ، انسانی حقوق کے اداروں اور سیاسی رہنماؤں نے پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ تینوں نوجوان جبری لاپتہ تھے جنھیں گذشتہ سال اگست کے مہینے میں پاکستانی فورسز نے مختلف مقامات سے اغواء کیا تھا۔
بلوچستان سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست کے مطابق اس خاندان کے سات افراد کو بیک وقت جبری لاپتہ کیا گیا تھا جن میں سے تین کو زیرحراست قتل کیا گیا ہے جبکہ چار اب تک جبری لاپتہ ہیں۔یہ سب آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔
ان میں سے تین نوجوان عادل ولد عصا ، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کو ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو گاڑی میں بٹھاکر بارودی دھماکے کے ذریعے قتل کرکے ، کہانی گھڑی گئی۔پانک کے مطابق انھیں 22 اگست 2022 کو تربت شہر سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ شوکت ولد لیواری ، ظہیر ولد لشکران ، پیرجان ولد لشکران اور احمد خان ولد شگراللہ بھی اسی خاندان کے افراد ہیں جنھیں ایک ہی روز مختلف مقامات سے عینی شاہدین کے سامنے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے گذشتہ رات کو ھوشاپ لیویز تھانے میں تین بچوں کی لاشیں لائی گئیں۔ان کے بارے میں پولیس کا بیان مکمل جھوٹ پر مبنی ہے ، پولیس طاقتور اداروں کے کہنے پر غلط بیانی کر رہی ہے۔ان کو بارودی دھماکے کے ذریعے قتل کیا گیا ہے۔ یہ جبری لاپتہ افراد تھے جن کی جبری گمشدگی کے ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
گلزار دوست کا کہنا ہے ، عادل کو سید مجید شاہ ایڈوکیٹ کے چیمبر سے اور ان کے بھائی شاہ جہان کو میری بہن (کزن) کے گھر سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا تھا، اور نبی داد بھی گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیے گئے تھے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ضلع تربت کی پولیس مکمل جھوٹ بول رہی کہ ان کی ہلاکت آئی ای ڈی دھماکے کے نتیجے میں ہوئی ہے بلکہ یہ جبری لاپتہ افراد تھے۔ جنھیں اگست کے مہینے میں جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔ا ان کی ماورائے عدالت گرفتاری کا میڈیا اور کیچ بار ایسوسی ایشن بھی گواہ ہیں۔
گلزار دوست نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زیرحراست دیگر چار افراد شوکت ولد لیواری ، ظہیر ولد لشکران ، پیرجان ولد لشکران اور احمد خان ولد شگراللہ کو بھی ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح بی این ایم کے انسانی حقوق کے ادارے پانک نے بھی بالگتر میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ پانک نے اپنی اگست کی رپورٹ میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نوجوانوں کی جبری گمشدگی رپورٹ کی تھی۔
پانک نے ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان میں مارو اور پھینک دو کی برسوں سے جاری پالیسی انسانی حقوق کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے یہاں لوگوں کے ساتھ ریاستی سلوک کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
پانک نے مطالبہ کیا ہے کہ اس منظم زیادتی کو دور کرنے اور اصلاح کے لیے فوری بین الاقوامی توجہ اور واقعے کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ بلوچستان میں ان واقعات کے ذمہ داران کی جوابدہی کو یقینی بنائے اور بلوچستان عوام کو انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس واقعہ کے ردعمل میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ بلوچستان کے علاقے بالگتر سے تین نوجوانوں کو اغواء کے بعد قتل کیا گیا۔ اس غیرانسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھانا سب کے لیے ضروری ہے۔
انھوں نے پارلیمانی جماعتوں کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد بلوچ پارلیمنٹیرین اس صورتحال میں محض تماشائی ہیں۔ وہ پاکستانی انتخابات کے قریب آتے ہی ووٹوں کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ ان کے آقا بلوچ عوام پر ظلم ڈھانے میں مصروف ہیں۔وقت آگیا ہے کہ بلوچ قوم دوستی کے بھیس میں ان عفریتوں کے کردار سے پردہ اٹھایا جائے۔