بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چئرمین چنگیز بلوچ نے مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان آج بربریت اور وحشت کی آماجگاہ ہےبن چکا ہے ، جہاں سانس لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ریاست نے بے لگام گروہ عوام الناس پر ظلم ڈھانے کو چھوڑے ہوئے ہیں جنہوں نے ہر شہر اور قصبے کی زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ آج بلوچ عوام کو جس غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے، اس میں عوامی مزاحمت ہی وہ واحد طریقہ ہے جو زندگی کی نمائندگی کرسکتی ہے، اور اس سیاسی بحران اور جبر کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا بلوچستان کے موجودہ حالات ظلم و بربریت کی تاریخی مثال ہیں، جہاں قتل عام اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔ جعلی مقابلوں میں بلوچ نوجوانوں کو شہید کرنا، ان کے خلاف جھوٹے مقدمے قائم رکھنا آج تمام مسلح اداروں کا شیوہ بن چکا ہے۔ خضدار شہر کو بے جا سیاسی بندشوں کا سامنا ہے، جہاں قومی تنظیموں کو علمی و فکری سرگرمی کی اجازت نہیں لیکن چوروں اور ڈکیتوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ خضدار بلوچستان کا مرکزی شہر ہونے کے باوجود تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور ٹھیکہ دار طبقہ کروڑوں روپے کماتا ہے۔
چنگیز نے کہا کہ تربت میں بالاچ بلوچ کا ماورائے آئین قتل اور جھوٹے مقدمات و دھونس دھمکیاں قطعی قابل قبول نہیں، نوجوانوں کو تعلیمی سہولیات دینے کے بجائے صرف جھوٹے مقدمات اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم تربت دھرنے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور لواحقین کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام اور سیاسی و معاشی زندگی کو یقینی بنانا صرف عوامی مزاحمت میں پِنہاں ہے۔ جب تک بلوچ عوام اپنے حقوق کی خاطر سیاسی مزاحمت کا رخ نہیں کرتے تب تک کوئی سرکاری دعویٰ یا یقین دہانی ان نقصانات کا مداوا نہیں کرسکتی۔ سیاسی بیگانگی اور اس گھٹن زدہ حالات کا مقابلہ عوامی تحریک کے توسط سے ہی ممکن ہے، جب طاقت عوام کے ہاتھوں میں ہوگی تب کوئی ظالم اپنی حد سے تجاوز کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہاکہ خضدار یونیورسٹی کا طویل عرصے سے غیر فعال ہونا بلوچستان اسمبلی میں بیٹھےنمائندوں پر سوالیہ نشان ہے، جہاں کالجز اور سکولز کی حالت بربادی کی نہج تک پہنچ چکی ہے، وہیں میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج کو کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں کی جارہی۔ طلبا کو سکالر شپ اور سادہ مراعات تک سے محروم رکھا جارہا ہے، لیکن منشیات کا کاروبار سرعام چل رہا ہے۔ وڈھ میں کشیدہ حالات نے سماجی و معاشی زندگی کو جمود کا شکار کر دیا ہے، جس میں نقصان صرف عام عوام کا ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وڈھ یونیورسٹی کو بند کرنے کی کوشش اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کو ٹھیکوں کی نذر کردینا قابل مذمت ہے۔