کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5244 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں کوہ سلیمان تونسہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنان محمد اشرف بزدار جینیوا قیصرانی بلوچ ابو بکر بزدار بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان طلبا اساتذہ بزرگ بچے خواتین سمیت ہر وہ فکر جو بلوچ کی حامی ہے ان کا جبری لاپتہ ہونا کوئی نئی بات تصور نہیں کی جاتی ،کیونکہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران جبری اغوا کی وارداتیں اتنی تیزی اور تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں کہ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد افراد کی رپورٹ مرتب کی گئی ہے ۔اور بلوچستان کا کوئی گوشہ نہیں بچا ہو گا جہاں کسی بلوچ فرزند کو جبری اغوا کیا گیا نہ ہو۔
انھوں نے وفود سے بات چیت میں کہاکہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کوئٹہ اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگاتے رہتے ہیں کہ ہمارے پیارے بازیاب کریں ، لیکن نتائج برعکس ملتے ہیں بازیابی کے بجائے مسخ شدہ نعشوں کی صورت میں لاپتہ پیارے ملتے ہیں ۔ اب تو فورسز کی جانب سے جبری لاپتہ افراد کی حراستی شہادت کے سلسلے کا باقائدہ آغاز کیا گیا ہے جو بے دردی اور غیر انسانی تشدد کے ذریعے وہ اسیران کی نعشیں پھینکنے کا گھناؤنا عمل کر رہے ہیں، جس کے ہاتھ پاوں ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں ، جس میں ڈرل کی گئی جسم نکالی گئی آنکھیں اور کان ناک کٹے ہوئے ہوتے ہیں ، جنھیں دیکھ کر انسانیت کانپ جاتی ہے اور سر شرم سے جھک جاتی ہے۔ بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں جس میں کوئی فرزند خفیہ اداروں کی بھینٹ نہ چڑھا ہو۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی اس انسانی المئے پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنابیٹھا ہے ، بلوچ فرزندوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی راہ تکتے رہتے ہیں ، لیکن حراستی شہادت کے واقعات نے ان کے امیدوں کا دم گھونٹ دیا ہے انہیں سو فیصد یقین ہے کہ انکے پیاروں کی نعشیں انہیں ملیں گی کیونکہ دشمن سے انہیں یہی ایک توقع ہے اگر کوئی خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں سے بچ کر بازیاب ہو جائے تو محض یہ ایک اتفاق ہوگا کیونکہ بہت سے جبری لاپتہ افراد کی مسخ نعشیں برآمد ہو گئیں ہیں۔