تربت سانحہ ،پیش کردہ ڈیمانڈز پر 24 گھنٹوں کے دوران سنجیدہ عمل درآمد نہ کیا گیا تو اسکے بعد آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا جو مزید سخت ہوگا۔ پیر کے روز مکران بھر میں شٹرڈاون ہوگا ۔مظاہرین کی پریس کانفرنس



تربت: پولیس تھانہ تربت نے عدالتی احکامات کو کئی گھنٹہ گزرنے کے باوجود ابتک سی ٹی ڈی کے خلاف بالاچ مولابخش قتل کیس کی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے،  پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود انہوں نے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی وجوہات بتانے سے گریز کیا۔ ان خیالات  کا اظہار شہید بالاچ کے لواحقین نے تربت میں جاری دھرنے کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ 

لواحقین نے کہاکہ ہم گزشتہ پانچ دنوں سے فدا احمد چوک پر شہید بالاچ بلوچ کی میت کے ساتھ ریاستی جبر کے شکار سینکڑوں متاثرین کے ہمراہ احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ریاست سے انصاف اور بلوچستان میں ریاستی قتل و غارت کی بندش کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر  بدقسمتی سے ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھے گا اور اس سے کسی بھی صورت  پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔

‎آج احتجاجی دھرنے کو، جو شہید بالاچ بلوچ کی  میت کے ساتھ جاری ہے پانچ دن مکمل ہو چکے ہیں۔ 

لواحقین نے پریس کانفرنس  میں کہاکہ دھرنا جب شروع ہوا تو  ہم نے 6 مطالبات پیش کئے اور کہاکہ‎ سی ٹی اپنا جھوٹا بیانیہ واپس لے۔

۲-سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلوں کے خلاف جیوڈیشنری انکوہری بٹھا دی جائے۔

۳- وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ فوری طور پر جعلی مقابلوں کے بند کرنے کی یقین دہانی کرائیں 

۴۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فیک انکاونٹرز پہ از خود نوٹس لیا جائے ۔

۵- تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

اور چھٹا مطالبہ سی ٹی ڈی کے مسلسل جعلی مقابلوں میں ملوث ہونے پر RO کو معطل کیا جائے۔

‎لیکن ریاست ابھی تک ایک بھی مطالبہ  قبول کرنا تو دور کی بات ہمارے دھرنے  کوتمسخرہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ جس کی مثال  اول تو سی ٹی ڈی کی جانب سے جعلی مقابلے کا بیانیہ، پھر احتجاج کے بعد دوسری ڈرامائی بیانیہ کا پیش کرنا اور اسکے بعد اب تک مزاکرات کے لیے جو لوگ آئے ہیں ، وہ لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ کچھ نہیں کیاہے ۔ مزاکرات کرنے کے لیے ایسے لوگوں کو بھیجا جارہا ہے جو آتے ہی کہتے کہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں، پھر وہی لوگ ہائی کورٹ کے اُس آرڈر کو لے آتے ہیں جس پر عمل درآمد ہی نہیں ہوا، اور پس پردہ یہی لوگ خاندان کو ہر قسم کے ذہنی دباو  ڈالنے  کی کوششوں میں ہیں کہ وہ جاری   احتجاج سے پیچھے ہٹ جائیں۔ 

انھوں نے کہاکہ کورٹ کی طرف سے جو حکم نامہ جاری کیا گیا  کہ شہید بالاچ اور دیگر لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں قتل کرنے کا مقدمہ سی ٹی ڈی کے خلاف درج کیا جائے لیکن ریاستی اداروں نے عدالت کے اس حکم نامے کو ردی  کا ٹکڑا سمجھ کر پھینک دیا ہے ۔ جس طرح انوار الحق کاکڑ کو پاکستان کے سب سے بڑے عدالت میں پیش ہونے کو کہا گیا تو انہوں نے واضح   کر دیا  کہ بلوچ نسل کشی کے معاملے میں ریاست اور ان کے حکمران کسی کے بھی جوابدہ نہیں ہیں۔ کیونکہ انہیں ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ اور یہ تمام قتل و غارت گری، بلوچستان میں ریاست کے ایما پر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان1 میں حالات دن بدن گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ 

 پریس کانفرنس میں انھوں نے کہاکہ ‎اسی احتجاج کے سلسلے میں آج مظاہرین نے ڈی بلوچ جاکر پانچ گھنٹے تک دھرنا دیا اور روڈ بلاک کیا  جبکہ دو دن تک کیچ میں بلوچ عوام کی مدد سے مکمل طور پر شٹر ڈاؤن ہڑتال رہا ہے۔  لیکن ان تمام اقدامات سے ریاست کے کان پر جو تک نہیں رینگتی  ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالاچ کا قتل سی ٹی ڈی یا ایک فرد کا قتل نہیں، بلکہ یہ پورے ریاست کا بنایا ہوا منصوبہ ہے۔ جو بلوچستان بھر میں نسل کشی کا ایک الگ فیز شروع کر چکے ہیں۔ اگر ان حالات میں بلوچ قوم منظم نہیں ہوئے اور اس ریاستی قتل وغارت کے خلاف مزاحمت نہیں کی تو یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا،بلوچستان کے گھر گھر سے ریاست لوگوں کو اٹھا کر انہیں ایسے ہی جعلی مقابلوں میں قتل کرتے  رہیں گے ۔  اس لیے اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ اس وقت بلوچ قوم ایک مضبوط اور منظم سیاسی طاقت سے ریاست کو یہ پیغام دیں کہ بلوچ قوم ریاست کی حالیہ بلوچ نسل کش پالیسی کسی بھی صورت قبول نہیں کرکے   اس کے خلاف شدت سے مزاحمت کریں گے۔ آج شہید بالاچ کی میت اور خاندان کے ساتھ ہزاروں لوگ شریک ہوکر صرف بالاچ کو انصاف فراہم کرنے کیلئے احتجاج نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے مستقبل کیلئے اور اپنے جبری گمشدہ پیاروں  کیلئے اس جدوجہد میں شریک ہیں ۔ اور اسی طرح بلوچستان بھر میں لوگ  منظم انداز میں جدوجہد کیلئے گھروں سے نکلیں کیونکہ اگر اس ریاستی ظلم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہیں کی گئی تو ہر گھر سے ایک بالاچ اسی طرح نعش بنتا جائے گا۔ 

انھوں نے کہاکہ ‎ریاست کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں سے ریاست ایک طرف بلوچ وسائل کا بے دریغ لوٹ مار کریں اور دوسری جانب بلوچ نسل کشی کو تیزی سے جاری رکھیں ، اور جبر کی انتہا پر پہنچ کر انہیں نکل مقانی کرنے پر اس طرح مجبور کریں جس طرح کیا جارہاہے ۔  آج بلوچستان بھر سے لوگ اغوا ہو رہے ہیں اور ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے اگر یہ سلسلہ نہیں روکا تو یہ آگ پورے بلوچستان میں پھیل جائے گا اس لیے مزاحمت صرف ضروری نہیں بلکہ فرض بن چکا ہے۔ شہید بالاچ کی تحریک کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ 

پریس کانفرنس میں  کہاکہ اسی سلسلے میں کل پورے مکران بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتے ہیں ، تاجر برادری سے درخوست ہے کہ وہ اس عمل میں بھر پور تعاون کریں اور مکران بھر سے لوگ اس شٹر ڈاؤن ہڑتال میں شرکت کرکے ریاست کو پیغام دیں کہ بلوچستان کے حوالے سے ریاستی پالیسی بلوچ قوم کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی۔ 

انھوں نے کہاکہ پریس کانفرنس زریعے ہم  ریاست  کو 24 گھنٹے کی الٹی میٹم دیتے ہیں اگر انہوں نے پیش کردہ ڈیمانڈز پر 24 گھنٹوں کے دوران سنجیدہ عمل درآمد نہ کیا گیا تو  اسکے بعد آئندہ لائعہ عمل کا اعلان کیا جائے گا جو  مزید سخت ہوگا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post