جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5221 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پی ٹی ایم کے ملک مجید آغا زبیرشاہ اور انکے ساتھیوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیس سال بیت چکے ہیں ، لیکن بلوچستان کی مائیں اپنےاس عزم پر قائم ہیں کہ کوششیں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی اور اگر انکے جبری لاپتہ بچے نہ بھی آ سکے تو انہیں ہلاک کرنے یا تشدد کا نشانہ بنانے والے ضرور اپنے انجام تک پہنچیں گے ۔
انھوں نے کہاکہ اس مہم کا آغاز بیس سال پہلے اس وقت کیا گیا تھا جب پاکستان میں فوجی حکومت آئی تھی اور بلوچوں کے کم عمر نوجوان اور بے بزرگوں کو جبری لاپتہ کرنے کا عمل شروع کردیا گیا اور کہیں بھی اندراج نہیں کیا گیا تاکہ جبری لاپتہ ہونے والوں کے بارے میں یہ معلوم نہیں کیا جا سکے کہ انہیں کیوں لاپتہ کیا گیاہے اور کہاں رکھا گیا ہے اور انکے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔
ماما نے کہاکہ اب تک جمع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 2001 سے 2022 کے دوران بلوچستان بھر میں پچپن ہزار 55000 کے لگ بھگ افراد جبری لاپتہ کیے گئے ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ اس سے قبل لاپتہ افراد کی ماوں کے پاس لاپتہ افراد کے معاملے کو زندہ رکھنے کے لئے کوئی چارہ کار نہیں تھااس لئے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا تھاکہ کہ ایک ہفتہ پریس قلب کے سامنے جمع ہوتیں اور ایک ریلی یا مظاہرہ کرتیں، اس کی ابتدا ماوں کی ایک تنظیم وی بی ایم پی کے ایک چھوٹے سے گروپ نے کی یہ مائیں اپنے ماتھوں پر اپنے بچوں کے ناموں کی بیٹیاں باندھی ہوتیں تھیں یا انکی تصویر اٹھائی ہوتیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دنیا میں سامراج کے پاس استعمال کرنے کیلے آخری حربہ طاقت ہے وہ ایک مظلوم پر استعمال کرنا چاہتا ہے ، لیکن یہ حقیقت سے بر عکس ہے کیوں کہ دنیا میں جو بھی پرامن جدجہد نے جنم لیا ہے وہ کسی ظالم کی طاقت سے ختم نہیں ہوا ہے کیوں کہ جب کوئی غلام قوم اپنے غلامی کو محسوس کرکے اس کےخلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے تو پھر اس قوم کو ئی طاقت نہیں ہرا سکاہے ۔