کوئٹہ : جبری لاپتہ زاکر مجید کی والدہ نے پریس کانفرنس کرتی ہوئی کہا گزشتہ 14 سالوں سے اس پریس کلب کا چکر اس امید کے ساتھ لگاتی ہوں کہ کسی کے دل میں رحم آئے اور وہ میرے بیٹے زاکر مجید بلوچ کے بارے میں مجھے معلومات فراہم کرکے مجھے زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائے مگر اب صرف سال بڑھ جاتے ہیں مگر زاکر مجید کا کوئی حال احوال نہیں ہے۔ آج سے چودہ سال قبل 8 جون 2009 کو مستونگ پڑنگ آباد سے جب زاکر مجید کو اٹھایا گیا تو میں نے اہل خانہ کے ہمراہ 2 مہینے سے زیادہ وقت تک یہاں پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا مگر اس ملک میں پرامن سیاسی و جمہوری احتجاج و طریقوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ زاکر مجید بلوچ بی ایس او آزاد کے سینئیر وائس چیرمین تھے اور طلباء لیڈر ہیں۔ 60 دنوں تک ہم پریس کلب کے سامنے بیٹے رہے کہ کہیں ہمارا بیٹا ہمیں لوٹا دیا جائے گا یا اگر انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا مگر ہمارے احتجاج کے باوجود انہیں رہا کیا گیا نہ ہی منظر عام پر لایا گیا۔ زاکر مجید کی بازیابی کے لئے پھر کراچی میں بھی ہم نے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائی مگر وہاں سے بھی ناامید لوٹنا پڑا اس کے بعد بھی ہم مایوس نہیں ہوئے پھر اہلخانہ نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا ان احتجاج اور مظاہروں کے باوجود بھی زاکر مجید کی رہائی ممکن نہ ہوئی۔
ریاست رحم کرے یا نہ مگر ایک ماں کی اپنے اولاد سے محبت کبھی ختم نہیں ہوتی اب 14 سال ہونے والے ہیں کہ زاکر مجید زندان میں قید ہیں لیکن بطور ماں میں نے ان 14 سالوں میں ایک دن بھی انہیں یاد کئے بغیر نہیں گزارہ ہے اور اس تمام عرصے میں ہمیشہ ان کی بازیابی کے لئے کسی نہ کسی طرح جد و جہد جاری رکھا ہے۔ میں ان 14 سالوں سے کوئٹہ،اسلام آباد اور کراچی پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہروں میں شریک رہی ہوں۔ میں اس ریاست سے اپیل کررہی ہوں کہ اپنے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے زاکر مجید کو منظر عام پر لاکر دکھایا جائے تاکہ ہمیں اسکی سلامتی کا سکون تو ملے مگر میری اس قانونی اور آئینی مطالبے کو بھی سنا نہیں جارہا ہے۔اگر زاکر مجید کسی جرم میں ملوث ہیں تو یہ عدالتیں کس لیے بنائے گئے ہیں انہیں عدالت میں پیش کرکے جوبھی سزا دینا ہے دیا جائے مگر انہیں جبری لاپتہ رکھنا کونسا انصاف ہے میں پوچھنا چاہتی کہ ریاست اور ریاستی ادارے اتنے کمزور ہے کہ وہ 14 سالوں سے زاکر مجید کا جرم نہ بتاسکے اور ایک بےبس اور لاچار ماں کو بیٹے کی جدائی کی اذیت میں تڑپاتے رہے میرے خیال میں اس انسانیت سوز ظلم کی ملکی قوانین اور ہمارا مزہب اسلام اجازت نہیں دیتی، میں پوچھی ہوں کہ پھر ہم پر یہ ظلم و جبر کیوں کیاجارہا ہے؟
میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ ملکی اداروں کے اہلکار میرے ہاس آئے اور مجھ سے میرے دوسرے بیٹے وحید کے حوالے سے پوچھا تو میں نے انہیں حلفیہ بیان دیا کہ میرا بیٹا وحید ملک سے باہر دبئی میں ہے لیکن ایف سی نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے کہ میں نے اپنے حلفیہ بیان میں زاکر مجید کے حوالے سے بھی کہا ہے کہ وہ ملک سے باہر ہے لیکن وہ حلفیہ بیان اب بھی کرائم برانچ کے دفتر میں جو زاکر مجید کے کیس پڑا ہوا ہے اس میں یہ حلفیہ بیان موجود ہے جس میں میں نے صرف یہ بیان دیا ہے کہ میرا بیٹا وحید ملک سے باہر ہے ریاستی ادارے ایک طرف زاکر مجید کے کیس میں غلط بیانی کرکے مجھے ازیت دے رہے ہیں اور دوسری طرف خضدار میں میرے گھر کے سامان، زاکر جان کی تصویرے اور زاکر جان کے یاد گار کے طور ہر رکھے ہوئے چیزوں کو جلا کر ہماری ازیت میں اضافہ کررہے ہیں میں ریاست سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم اس ملک کے شہری نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ اسلام کے نام پر بنے والے ملک میں اتنا ظلم ہورہا ہے
آپ سے ایک مرتبہ پر اپیل کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کی بازیابی کے لئے میری آواز کو توانا کریں۔ 14 سال سے بیٹے کی جدائی کا غم لئے پھر رہی ہوں مگر ہمیں اب تک انصاف نہیں مالا ہے۔ زاکر مجید کی جبری گمشدگی کو پندرہ سال مکمل ہو جائیں گے۔ پندرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی مدت نہیں بلکہ یہ ایک مکمل زندگی ہوتی ہے اور میں نے یہ تمام زندگی اپنے بیٹے کے بغیر گزارہ ہے۔ اب مجھے زاکر مجید کی جدائی کی اذیت خاموش رہنے نہیں دے گی میں اپنے لخت جگر کی باحفاظت بازیابی کے لیے بھر پور احتجاجی تحریک چلاونگی میں زندگی کی تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کرتی ہوں کہ زاکر مجید کی بازیابی کے لئے جاری جد و جہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ اور میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اداروں پاکستان کے حکمرانوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتی ہوں کہ 14 سال کا عرصہ انتظارمیں گزر گئی اب مزید انتظار کی سکت نہیں میرے بیٹے کو منظر عام پر لایا جائے۔