دبئی اور پاکستان ہاتھوں طویل عرصہ سے جبری لاپتہ کئے جانے والے راشد حسین کی بازیابی کیلے سیمینار کا انعقاد کیاگیا




شال پریس کلب شال میں اتوار کے روز   دبئی سے   طویل  طویل عرصے سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے  بعد ازاں  غیرقانونی پاکستان کے حوالے کئے جانے والے  انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کے  بحفاظت بازیابی کیلے لواحقین کی جانب سے  سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں سیاسی سماجی رہنماوں و کارکنوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ۔ 


سیمینار سے  جبری لاپتہ راشد حسین کے  والدہ نے اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے کو انٹرپول کے زریعے سے نہیں بلکہ تشدد کر کے  جبری گمشدہ کیا گیا،جس میں دبئی اور پاکستان کی ریاستیں ملوث ہیں۔  میرے بیٹے کی گرفتاری ظاہر کرنے کے باوجود اسے کسی عدالت میں پیش نہ کرنا ہمارے ساتھ  ظلم ہے -


انہوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ سالوں سے بیٹے کی فریاد لیکر میں انصاف کے لئے بنائے گئے تمام اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن وہاں سے ہمیں انصاف کے بجائے دھتکارا گیا عدالتوں میں مجھے کہا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کا کیس واپس لے لیں اور چلیں جائیں-


انھوں نے راشد حوالے منعقد سیمینار کے آرگنائزر و شرکت کرنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے کی بازیابی کے لئے امیدیں اپنے قوم سے ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ بلوچ قوم بیٹے کی بازیابی میں ہمیشہ ایسے ہی ہماری آواز بنے رہیگی-


پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  اس طرح کے پروگرامات جب بھی منعقد کئے جاتے ہیں  تو جبری گمشدگی کے شکار سب یاد آ جاتے ہیں ، ذاکر مجید ہو ، زاہد بلوچ ہو یا باقی سب ہوں ، سب یاد آ جاتے ہیں ، یہ سب ایک ہیں سب کا درد بھی مشترکہ ہے ۔ سب کا تکلیف بھی ایک ہے ۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ اتنے سارے پارٹیوں اتنے سارے تنظیمیں ہونے کے باوجود مسنگ پرسنز کا مسئلہ جوں کا توں ہے ، چھ نکات پیش کرنے کے باوجود اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے ، چھ نکات میں سے ہر کسی بھی نکتے پر عمل در آمد ہوا ہے تو وہ نیشنل ایکشن پلان ، ایک پارٹی نے خود یہ ڈیمانڈ کیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کے روح کے مطابق عمل کیا جائے ،لیکن  آج وڈھ کے معاملے پر اس نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور عمل درآمد کیا جا رہا ہے ۔


نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگی کے مسئلے کو ہمیں قومی سیاسی جدوجہد کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ قومی جدوجہد جو قومی شناخت اور تشخص کے لیے ہے، قومی تاریخ ، قومی کلچر کی ترقی، ساحل وسائل کی خوداختیاری کے لیے جدوجہد ہے، تو اس قومی جدوجہد کو کچلنے اور ختم کرنے لیے جبری گمشدگی ایک حربہ ہے۔ جو اس ایک ایسا ماحول پیدا کرنا مقصود ہے جو بطور قومی افراد اپنے قومی جدوجہد سے دست بردار ہو سکیں۔ اس حربے کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی سیاسی جدوجہد کو کچلنے کے لیے مارو اور پھینکو پالیسی، سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلے  ، پورے بلوچستان میں جرائم پیشہ افراد کو منظم کر کے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا جو لوگوں کو عدم تحفظ کا شکار ہوں یا فرقہ واریت جیسے حربے اس قومی سیاسی جدوجہد کو دبانے یا کچلنے یا بلوچ سماج کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔


ایڈوکیٹ عمران بلوچ نے کہا کہ ایک جانب راشد حسین ، ذاکر مجید اور زاہد بلوچ ، شبیر بلوچ جیسے نوجوان جبری طور پر گمشدہ ہیں ، اور ان کے لواحقین مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں تسلسل کے ساتھ اپنے لخت جگر کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کر رہے ہیں ،ان کے گھر بھی اجڑ گئے لیکن  انہیں سوائے طفل تسلیوں اور کچھ نہیں مل رہا ہے ، دوسری جانب ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جنہوں نے ظاہرا ان لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اٹھا رہے تھے ان کے کیسوں کیلئے لڑ رہے تھے ۔لیکن ذرا دیکھ لیں کہ وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے ، مال دولت سمیت بڑے بڑے سرکاری عہدے بھی ان کو ملے ، ان معاملات پر بھی ہمیں سوچنا ہوگا ۔



ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خیالات کی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے جو مائیں بیٹھی ہوئی ہیں اس عمر میں بھی وہ ہم سے زیادہ جدوجہد میں شریک ہیں ، یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بغیر کسی لالچ ، بغیر کسی ذاتی اور سیاسی ایجنڈے کے ان مائوں کے ساتھ مل کر ان کے جگر گوشوں کیلئے مشترکہ آواز اٹھائیں ۔



پروگرام سے لاپتہ آصف اور رشید کی بہن سائرہ بلوچ ، لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ، بلوچ وومن فورم کے آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ ، ، کوئٹہ بار کونسل کے جنرل سیکرٹری چنگیز حئی بلوچ  ، اپنے خیالات کا اظہار کیا  جبکہ 

ایڈوکیٹ ایمان مزاری ، ایڈوکیٹ کامران مرتضی نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے تقاریر ارسال کیے جو نشر کیے گئے -

Post a Comment

Previous Post Next Post