کا مریڈ عبدالحق کے الوداعی خیالات تحریر سمیر جیئند بلوچ



آج کامریڈ عبدالحق محمد شہی عرف بابو عبدالحق کے 12 اکتوبر کے دن  21 ویں  برسی پر انھیں جھک کر  خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ انھیں اللہ پاک اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ یقینا ہماری دعا انھیں ناگوار گزریگا کیوں کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک سچے انسان ،انسان دوست ،کھرے آزادی پسند، شعوری سیاستدان ،تنقید برائے تعمیر پر یقین رکھنے والے  سوشل سماجی کارکن اور ایک بتی کے مانند حقیقی کا مریڈ  ، خود کو آگ کے سپرد کرکے دوسروں کیلے روشنی پھیلانے والے سوشلسٹ خیالات رکھنے والے عظیم انسان تھے ۔ 


آپ عالمی سیاست سے لیکر ملکی علاقائی سیاست پر نہ صرف  مکمل عبور رکھتے تھے بلکہ وہ آئندہ آنے والے سیاست بارے بھی وہی تجزیہ پیش کرتے تھے  گویا وہ خود اسی زمانے میں جی رہے ہوں  ۔ 


بقول  ایک کا مریڈ دوست کے 2000 میں جب وہ کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں دل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر زیر علاج  تھے، تو ملاقات دوران جو  انکا تجزیہ عالمی سطح خصوصا بلوچستان بارے تھا وہی حالات آج ہمارے سامنے ایک آئینہ کے مانند کھڑے ہیں ۔ اور آج کے سیاسی حالات قوم کے  سامنے ہیں آج بلوچ کیا کھو یا  اور پارہا  ہے یہ بھی سب کچھ  واضح ہے ۔ 


آپ کہا کرتے تھے کہ افغانستان میں نیٹو کے قدم رکھتے ہی بلوچستان میں آزادی کی چنگاری آگ کی شکل اختیار تو کرلیگی مگر اللہ نہ کرے  کہ آگے چل کر وہ شکل اختیار نہ کرے ، جس سے ہم 1971 میں گزرے تھے ۔ وہ ماضی سے سخت مایوس تھے وہ  کہتے تھے کہ 71 میں ہمارے  ذمہ دار ساتھیوں نے عوام کی محبت بھروسہ  ،سیاسی،

سماجی اور معاشی طورپر حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگئے، مگر عوام کے معیار پر پورے اترنے میں کامیاب نہیں ہوپا ئے کیوں کہ انھوں نے عوامی  محبت کا جواب جوکہ آزادی تھا نہیں دے سکے ، ہاں اپنے اپنے جیب بھرنے میں کامیاب ضرور ہوگئے بینک بیلنس بڑھا دیئے ۔ 


خدانخواستہ وہی مرض آئندہ آنے والے آزادی پسندوں کے قیادت  کو لگا تو ہماری بدقسمتی ہوگی۔ کیوں کہ نوجوان نسل  اپنا لہو ،پسینہ ،پیسہ

،پانی کی طرح اس لئے بہانے سے نہیں کتراتے کہ  ان کا ایک ہی منزل ہے اور وہ   آزادی ہے  ۔ وہ اس سے کم پر کبھی بھی راضی نہیں ہو نگے اور انھیں راضی  ہونا بھی نہیں چاہئے  ،انکو اس سے غرض نہیں ہے کہ  آزادی کا نام لیکر میدان میں اترنے والے شخصیات کون کون ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں رہنے والے  ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک مٹھی بن کر آزادی کے  کارواں کو منزل پر پہنچا دیں، وہ کبھی نہیں چاہتے کہ ہر ایک ڈیڑہ انچ کی مسجد میں بیٹھ کر آزادی کے نام پر دکاندار ی کریں۔


کوئی کسی کی ٹانگ مذہب فرق کے نام پر کھینچے تو کوئی پارلیمان غیر پارلیمان کے نام کو ظاہری استعمال کرکے عوام کو بیوقوف بنا ئے ،کوئی طبقہ کے نام پر قوم کو تقسیم کرے تو کوئی سردار نواب اور مڈل متوسط طبقہ کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلے، ایک دوسرے کے کان بھردیں۔


اگر بد قسمتی سے  ایسا ہوتا ہے تو بلوچ قوم آزادی کے نام پر  پچھلے آزادی کی چار جنگوں کی طرح شہید وں سے قبریں اور جبری گمشدگیوں سے کھلی کیمپیں  ضرور  بھریں گے ، مگر  آزادی کا خواب کبھی حقیقت کا روپ نہیں لے پائے  گا ۔ البتہ 1971 کی طرح کچھ نام نہاد  لیڈر بن کر اپنے آپ کو ہیرو تصور کرکے  بینک بلینس بڑھانے میں ضرور کامیاب ہوکر اپنا منزل (شہرت) پالیں گے ۔ 


کا مریڈ آپکے خیالات انمول تھے ، وہی چنگاری آگ کی شکل اختیار کرچکا ہے ، نوجوان نسل بے غرض ہوکر لہو ،پسینہ اور  پیسہ بہا رہے ہیں ،کھلی کیمپیں اور قبریں بھر رہے ہیں دوسری جانب جیبیں  بھیک ،دھمکیوں ، بلیک میلنگ سے بھرنے کیلے ،سیاسی گد میدان میں ہر طرف سے اتر چکے ہیں آزادی کا راستہ روکنے کیلے مقامی ڈیتھ اسکوائڈز،منشیات فروش ، مذہبی، طبقاتی،پسند ناپسند،فرقہ واریت، چمچہ گیری، دوستی کے نام پر ایک دوسرے کو چھرا گھومپنے والوں سمیت  ڈکٹیٹر خیالات رکھنے والے ہر گروہ کے افراد ، آزای پسند جماعت پارٹی ، تنظیموں کے علاوہ  سرمچاروں کا راستہ روکنیں کی ایڑی چوٹی کا زور لگا  رہے ہیں ۔ 


اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا  ۔سیاسی گد مہ دشمن رد انقلابی قوتیں یا  حقیقی آزادی پسند  کامیاب ہو جا تے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post