کیچ تمپ ڈگری کالج طلبا و طالبات
نے جاری بیان میں کہاہے کہ جس کا سالانہ بجٹ 3 کروڑ سے اوپر ہے ، لیکن کالج کو دیکھ کے لگتا نہیں کہ کبھی اسے کوئی فنڈنگ ہوئی ہے ۔ کالج ایک ویران کھنڈرات سے کم نہیں ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ داخلی دروازہ پر لے دے کے تین چار درخت تھے وہ بھی پانی نہ ملنے کے سبب خشک ہوگئے ہیں ، اگر بات کلاسز کی کی جائے تو وہ ہزاروں سال پرانی کمرے کی لگتی ہیں ،ان باتوں کو چھوڑ کر، ایک اور بات، ہر روز پروٹسٹ کرنا،، تپتی دوپ میں ننگے پاؤں باہر نکلنا صرف اورصرف سائنس کے لیکچر کےلیے کہ یہاں کے طلبہ اور طالبات بھی ایک بہتر مستقبل کے قابل ہیں۔ لیکن یہ سب عمل اور کوششیں اس ملک میں فضول ہیں ،شاید کچھ طلباء کو یہ بات معلوم نہیں ہو گی، تو انھیں بتائیں کہ بڑی محنت ، احتجاج کے بعد جب اس کالج کو کیمسٹری کا استاد ملا تو اس نے بھی جلدی اپنا ٹرانسفر تربت کروادیا ۔
لہذا ان سب نااہلیوں کا ذمہ دار کالج پرنسپل ہیں ۔
انھوں نے کہاہے کہ طلباء طالبات ہدایت مطابق کارڈ گلے میں لٹکا کر کالج بس نہ ہونے کے باوجود وقت پر پہنچیں تو بھی کلاسز لینے والا کوئی استاد موجود نہیں ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ ہم جب پرنسپل سے سوال کرتے ہیں کہ کالج کا بجٹ اور فنڈز کہاں جاتے ہیں؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ سارا بجٹ سیکرٹری اور خزانے والے لے جاتے ہیں اور ہمیں آدھا بجٹ ملتا ہے۔
بقول پرنسپل 10 لاکھ اپنے ہاتھوں سے سیکرٹری کو دیئے ہیں! اگر مجھے پورا بجٹ ملتا تو میں ابھی ایک نیا بس خریدتا اور کالج کے سارے مسائل حل کرتا ! بات یہاں غور کرنے کی ہے کہ مطلب آپ غیر قانونی کام کر رہے ہیں اور کرپشن میں ملوث ہیں! اور اس بات کو آپ سرعام پورے کلاس کے سامنے اپنے ہوش و ہواس میں تسلیم کررہے ہیں!
انھوں نے کہاہے کہ بات جب تمپ کالج کی آتی ہے تو یہاں کوئی بھی پولیٹیکل سورس استعمال کر کے پرنسپل بن سکتا ہے اور بعد میں لوٹ مار کرکے غریب طلباء طالبات کے مستقبل کو کو تباہ کرکے چلا جاتاہے ، تمپ ڈگری کالج میں ہر پرنسپل کالج کو دینے کے بجائے سارا کچھ لےجاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے! سیاسی لیڈروں کا تو منشور ہے کہ ' پہلے ہمیں دو ' اور خود بھی کھاو آپ کو ہاتھ لگانا والا کوئی نہیں ہے '
انھوں نے بیان میں کہاہے کہ ہم سیاسی لیڈروں اور وزیروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کالج اور طلبہ کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کیلے آگے آئیں اور اپنا فرض پورا کریں ۔