شال بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5160 دن ہو گئے۔
جماعت اسلامی بلوچستان کے صدر صدر عبدالحق ہاشمی ، جنرل سیکریٹری اور حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچ گزشتہ 73 سالوں سے پاکستان کی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں اس واقعے کے منظر عام پر آنے سے ایک سکتہ کی کیفیت میں ہیں ۔
اور جن بلوچوں کے پیارے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری اغوا ہیں وہ اب شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔ اس حوالے سے بلوچ جو کہ پاکستان اور اس کے کسی بھی ادارے سے رحم اور انسانیت کی کوئی امید نہیں رکھتے اپنی نظریں عالمی اداروں پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اور اس امید میں ہیں کہ شاید مہذب اقوام اور انسانی حقوق کے ادارے ظلم کے خلاف رد عمل دکھائیں گے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عالمی اداروں اور مہذب دنیا سے تو قعات ایک طرف لیکن سب سے پہلے بلوچ بلوچ کو خود یہ جاننا پڑے گا کہ اجتماعی قبروں کی دریافت ہو یا روزانہ کہیں نہ کہیں کسی بلوچ فرزند کی مسخ شدہ نعش کا ملنا ہو، بلوچوں کی ٹارگت کلنگ ہو یا چادر چاردیواری کی روزانہ کی بنیاد پر بے حرمتی یا ہمارے جگر گوشوں کی فورسز کے ہاتھوں جبری اغوا ، ان سب کا بنیاد صرف یہ ہے کہ بلوچ آزاد نہیں بلوچ کے سرزمین پر دوسرے قابض ہیں اور حکومت کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ اس قابض کو نہ اس بات کی پرواہ ہے کہ جب ہم اپنے پیاروں کی نعشیں اٹھاتے ہیں تو ہمارے دل میں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران بلوچستان میں صرف لوٹنے اور لوٹ مار کی حفاظت کرنے کے لیے آئے ہیں ۔ اسے شروع دن سے ہی بلوچ نہیں بلوچستان چاہئے۔ وہ ہمیں مار کر یہاں صرف اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ یہاں کی دولت لوٹ کر اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو یہاں منتقل کر سکے۔ یہاں ہمیں صرف اجتماعی قبریں اور نعشیں مل رہے ہیں۔