کراچی( نامہ نگار ) بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ شبیر بلوچ کو سات سال قبل 4 اکتوبر 2016 کو ان کی زوجہ زرینہ کے سامنے تربت کے علاقے گورکوپ سے جبری طور پر اغوا نما گرفتاری کا نشانہ بنایا جن کے بارے میں آج تک کوئی اطلاع نہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی حفاظت کریں اور ان کی سکیورٹی میں مدد فراہم کریں۔ یہ معاشرے کے لئے اہم خدمات فراہم کرتے ہیں جو ریاست یا ملک کی حکومت کی طرف سے تشکیل دی جاتی ہیں تاکہ امن و امان بچایا جا سکے۔ لیکن اگر سیکیورٹی فورسز ہی اس قسم کے سنگین جرائم میں ملوث ہوں تو گلہ یا شکایت کس سے کریں۔ پاکستان ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے۔
بی وائی سی ترجمان نے کہاہے کہ معاشرتی حقوق اور آئینہ داری کی پالیسیوں کے تحت، افراد کے حقوق کی پاسداری کرنا ہماری جمہوری منشور اور قوانین کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے تو ان کے لئے قانونی راہوں سے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے عدالت سے رجوع کر کے اپنے لئے انصاف طلب کرسکیں لیکن پاکستان میں عدالتوں کی آنکھیں، کان اور زبان پر سیاہ پٹی لپیٹ دی گئی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا ہے کہ 4 اکتوبر 2023 کو سیما بلوچ کے احتجاجی کال کی حمایت کرتے ہیں اور اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ سیما بلوچ سمیت تمام تر مسنگ پرسنز کی فیملیز کی زہنی اور جسمانی حالت پر رحم کھائیں۔ مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کر کے کیس بنائیں اور قصہ مختصر کریں۔