بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5181 دن مکمل



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5181 دن ہوگئے ہیں۔


آج کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی این پی کے ضلعی صدر اور سی سی ممبر غلام نبی مری، آغا صبور اور دیگر نے شرکت کی ۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق اور  وسائل کے حصول کے لئے بلند کئے جانے والے قومی صداوں کی پاداش میں جبر استبداد کا ایک ایسا تسلسل اور اس میں بتدریج شدت کہ یزیزیت بھی شرما جائے سر کشی سینہ زوری کی ایسی گھمنڈ کہ ریاست پاکستان عالمی انسانی حقوق کی مروجہ اصولوں اور قوانین کا تمسخر اڑا کر انہیں طاقت اور غرور کے شعلوں کی نظر کرنے زرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ گویا ریاست پاکستان ہر قسم کی بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری سے مثتثنی قرار پایا ہے۔ 


انھوں نے کہاکہ پنجگور خاران تربت کے ساتھ ساتھ ستمبر کے اوائل میں ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقے فوجی کاروائیوں کے شدید نشانے پر رہے بلوچ آبادیوں پر بمباری شیلنگ اور زمینی حملوں کے نتیجے میں خواتین بچوں سمیت ایک درجن سے زائد بلوچ فرزندوں کی شہادت پچاس سے زائد افراد کی جبری گمشدگی گھروں کھڑی فصلوں کو جلا کر راکھ کر دینا شامل ہیں۔ اور سیاسی لوگوں کے گھروں کے اوپر چھاپے اہلخانہ رشتہ داروں کو اٹھا کر غائب کرنا اول زکر سطور کی تمید ہے۔ 


ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ جبری اغوا اور غیر قانونی گرفتاریوں اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بھی بڑھا ہے، جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ کش مافیا کے دہشتگردوں کی بدماشیاں عروج پر ہیں گزشتہ مہینے باری تعداد پر مشتمل نفری نے مقامی آبادیوں پر دھاوا بھول کے بلوچوں کی بلہ وجہ زدکوب کیا اور ڈرا دھمکا کر زبردستی گھروں میں گھس کر چادر چاردیواری کے تقدس کی پامالی کرکے قیمتی آسیا اور نقدی لوٹ لئے ان حالات میں جہاں ہر طرف لاشیں بھکری پڑی ہیں۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ مسخ شدہ لاشوں کو روکنا ہماری حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستانی عسکری اداروں کی ننگی جارحیت کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post