شال ہسپتال کے مردہ خانہ میں مسئنگ پرسنز کی 10 نعشیں پڑی ہوئی ہیں جنھیں جعلی مقابلوں میں مارا گیا ہے ۔ ماما قدیر



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5173 دن ہوگئے.


اظہار یکجہتی کرنے والوں میں کراچی سے سینیئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے عہدیدار محمد عارف بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض ریاست پاکستان کے خفیہ ادارے فوج سی ٹی ڈی اور دیگر فورسز بلوچستان میں بے لگام گھوم رہے ہیں۔ وہ جب اور جہاں بھی چاہیں بلوچ طلبا وکلا ٹیچر کسی بھی شعبے یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔ اور بعد میں جعلی مقابلہ کو مقابلہ  کہہ کر ان کی مسخ نعشیں کسی ویرانے میں پھینک دیتے ہیں۔


انھوں نے کہاہے کہ  اب تک بلوچستان میں پاکستانی خفیہ اداروے 65000پھینسٹھ ہزار سے زائد بلوچوں کو جبری اغوا کرکے لاپتہ کر چکے ہیں اور ان لاپتہ افراد میں سی اب تک تقریبا 20000 بیس ہزار کی مسخ نعشیں مل چکی ہیں۔


 انھوں نے کہاہے کہ آج میں خد ہسپتال گیا وہاں سرد خانے میں دس مسخ شدہ نعشیں پڑی  تھیں تیں انکی حالت ایسی تھی کہ وہ مشکل سے پہچانےجاتے تھے چند ایک کو میں نے پہچان لیا جنکی تصویر بھوک ہڑتالی کیمپ میں لگی ہوئی ہیں۔  جنہیں وحشیانہ تشدد کے بعد شہید کیا گیا تھا۔ 


ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ یہ تمام نعشیں ان بلوچ مسنگ پرسنز کی ہیں جنہیں مختلف اوقات میں پاکستان سکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے قانون اغوا کیا گیا  تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان نعشوں کو بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے ریاستی فورسز اپنے تحویل میں لئے ہوئے ہیں۔ جب کے وہ سب نعشیں ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کے لئے بلوچ لواحقین کے حوالے کرنے چاہئے، بجائے ریاستی فورسز انہیں تحویل میں لئے ہوئے ہیں۔ آج پاکستان کی ان سفاکیوں اور ناروا سلوک کو دیکھ کر بھی عالمی ادارے خاموش ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو چاہئے تھاکہ وہ پاکستانی ریاست پر دباو ڈال کر ان کیسز کی تحقیقات میں بذات خود کردار ادا کرتا اور ایسے جنگی جرائم میں ملوث پاکستانی حکمرانوں اور خفیہ اداروں کے سربراہان پر عالمی عدالت میں چلاتے۔ ماما نے کہا کہ دس سالہ بچے سے لیکر 80 سالہ بزرگوں تک ریاستی عقوبت خانوں میں ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post