جرمنی: بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ دیگر مظالم کے علاوہ پاکستان نے ہمارے سماج میں مذہبی تفرقہ پیدا کرکے عقائد کی بنیاد پر بھی جھگڑے شروع کرنے کی کوشش کی لیکن بلوچ قوم دوستی نے ان تمام کوششوں کے آگے باند باندھ رکھا ہے۔
انھوں نے تربت میں رؤف برکت کے قتل کی مثال دیتے ہوئے کہا ملاؤں نے ان پر جو بھی الزام لگایا ہو لیکن لوگ جانتے تھے کہ ملا سازشی ہیں۔لوگ ملاؤں کے خلاف نکلے، احتجاج کیا ، لوگ باخبر ہیں کہ یہاں ہمارے سماج کو داغدار کرنے کے لیے ریاست سازش کر رہی ہے۔
ڈاکٹر نسیم نے یہ باتیں رواں مہینے بی این ایم جرمنی چیپٹر کے دورے کے دوران پارٹی کے کارکنان کے ساتھ مختلف نشستوں میں کیں۔اس دوران انھوں نے برلن یونٹ، ہنوفر یونٹ،جنوبی راین ویسٹفالن یونٹ،کیمنٹس یونٹ اور بریمن یونٹس کے ممبران کے ساتھ مختلف نشستوں میں گفتگو کی۔اس دورے میں بی این ایم جرمنی کے صدر اصغرعلی بلوچ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان نشستوں میں ممبران نے رہنماؤں سے مرکزی کارکردگی،سوشل میڈیا کے مسائل اور بلوچستان میں جنگ آزادی سے متعلق سوالات کیے۔ڈاکٹر نسیم بلوچ اور اصغرعلی بلوچ نے ان سوالات کے جوابات دیے۔یہ دورہ 16 اگست تک جاری رہا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا پارٹی کی گذشتہ کونسل سیشن میں بی این ایم کے آئین میں موجودہ حالات کے مطابق تبدیلیاں کی گئیں تاکہ پارٹی ادارتی بنیاد پر ترقی کرئے۔میڈیا، انسانی حقوق ، سوشل ویلفئر ، خارجہ ڈیپارٹمنٹ، زرمبش اور پانک جیسے ادارے اور ذیلی کمیٹیاں قائم کیے گئے تاکہ اگر کل ایک نئی کابینہ کا انتخاب ہوا تو ذیلی ادارے کارکردگی اور رکارڈ ان کے سپرد کرسکیں۔
انھوں نے کہا ویسے پارٹی خود بھی ایک ادارہ ہے، تحاریک کو پارٹی اور ادارے آگے لے جاتے ہیں اس لیے آج ہماری جہد مضبوط ہے اس مضبوطی کا سبب پارٹی کے ادارے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ اور اصغر علی بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمیں آزادی کے دن اور اس کے بعد آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے آج تیاری کرنی ہے۔ اگر آج ہم نے کمزوری دکھائی تو ماضی کی طرح ہم اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔کیونکہ پاکستان نے صرف ہماری زمین پر قبضہ نہیں کیا ہے بلکہ زمین کے ساتھ ہماری زبان اور ثقافت کو بھی ملیامیٹ کیا ہے۔آج ہم اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے بھی جہد کر رہے ہیں۔ جب تک ہم آزاد نہیں ہوتے ہمیں اپنی زبانوں کے لیے بھی لڑنا ہے۔آج بی این ایم زبانوں کی بقاء کے لیے کام کر رہی ہے۔ زرمبش روزانہ بلوچ زبان میں ریڈیو خبریں نشر کرتا ہے اور مضامین اور خبریں دیے جاتے ہیں۔ زرمبش جتنا کوئی ادارہ بلوچی مواد شائع نہیں کر رہا ہے۔اس سے زبان کی ترقی ہو رہی ہے اور لوگوں کو بلوچ تحریک کے بارے میں آگاہی مل رہی ہے۔
پاکستان کے مظالم اور بلوچ تہذیب و ثقافت کی بیخ کنی کی پالیسی پر انھوں نے کہا پاکستان کی طرف سے قتل و غارت اور جبری گمشدگی میں تیزی لائی گئی ہے۔دشمن کا مقصد بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ بلوچ قوم اس طرح کے مظالم کے بعد اپنی سرزمین کو چھوڑ کر سرینڈر ہوجائے گی۔لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ بلوچ اپنی قوم دوستانہ نظریے کی بنیاد پر ریاست کے تمام حربوں کو اکھاڑ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ بی ایس او آزاد ، بی این ایم اور جنگی تنظیموں نے ادارے تشکیل دے کر جہد کو مستحکم کیا ہے۔
بلوچ خواتین کے فدائی حملوں سے متعلق سوال پر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بی این ایم کے آئین میں ہے کہ بی این ایم تمام آزادی پسند تنظیموں کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن یہ ہمارا حق ہے کہ ہم تنظیموں کی پالسیوں اور طریقہ ہائے کار پر اعتراض یا تنقید کریں تاکہ آزادی کی جہد کو نقصان نہ پہنچے۔
اتحاد کے بارے میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہم نے اس کے لیے اقدامات کیے ہیں اور امکانات پر اپنی رائے دی ہے۔
جلاوطن حکومت کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر انھوں نے کہا یہ ایسا عمل ہے کہ اس کے لیے سب سے پہلے ایک ملک کو اس حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا اور آپ مختلف مقامات پر اپنے سفارت خانے قائم کرسکیں۔ اس کے لیے جہد آزادی میں شامل تمام اسٹاک ہولڈرز کو ایک جگہ کرنا ہوگا، یہ ایک شخص یا تنظیم کا کام نہیں ہو۔ اس پر اکثریت اسٹاک ہولڈرز کا اکھٹے ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا اسے ایک مذاق اور ٹائم پاس سمجھے گی۔
انھوں نے کہا غلامی کا احساس اور کمٹمنٹ ہمیں اس راستے سے جدا ہونے سے روکتے ہیں۔جس دن ہم نے اپنے احساس کو قتل کیا ، وہی دن ہماری کمزوری کا دن ہوگا۔تنظیم کے پروگرامات میں شامل ہونا، سرکلز اور تربیتی پروگرامات کا حصہ ہونا اور تنظیم کو چندہ دینا یہ ایسے کام ہیں کہ ہمیں اپنی تنظیم اور جہد سے وابستہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ڈسپلن کی بھی ہمیں پابندی کرنی ہے۔ تنظیموں میں ڈسپلن کی پابندی بیحد اہم اور ضروری ہے۔ پارٹی آئین پر چیئرمین سے لے کر کارکن تک سب نے عمل کرنا ہے۔کسی سے کوئی بھی غلطی سرزد ہو ، اسے آئین کے مطابق اس کی سزا دی جائے گی۔
ڈاکٹر نسیم نے کہا جلاوطن ہونے کا فیصلہ آسان نہیں۔اس فیصلے کے پیچھے بھی ایک مضبوط کمٹمنٹ ہے۔یہ تمہاری زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ ہے لیکن قوم کے مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ آج ہم سب یہاں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جیسا کہ دوسرے اقوام کی ڈائسپورا اپنی قوم کے لیے جہد کر رہی ہے۔مگر ہماری ڈائسپورا کے حالات یکسر مختلف ہیں کیونکہ ہم پر تشدد کیا گیا ہے، ہمیں محکوم بنا کر رکھا گیا ہے اس لیے ہماری ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ ہمیں اپنی گزربسر کا بھی بندوبست کرنا ہے اور قومی تحریک میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان ہمارے سیکولر ثقافت کی بیخی کنی کوشش کر رہا ہے۔پاکستان کہتا ہے کہ تم اچھے مسلمان نہیں ہو ، آؤ ہم تمھیں اچھا مسلمان بناتے ہیں۔مگر سچائی یہ ہے کہ پاکستان اور اس کا نظام کل کے ہیں ۔ بلوچ ہزارہا سالوں سے وجود رکھتا ہے اور سینکڑوں سالوں سے مسلمان ہے۔ہم دیگر اقوام کی طرح مذہب اور فرقوں میں تقسیم ہیں۔ بلوچوں میں ہندو اور دگر مذاہب کے ماننے والے بھی ہیں کہ سینکڑوں سالوں سے یہی رہتے ہیں ، بلوچی زبان اور رسم و رواج اختیار کیے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا بی ایس او آزاد اور بی این ایم کی تشکیل اور پھر بلوچ مسلح تنظیموں کا ادارتی بنیاد پر آگے آنے سے آزادی کی تحریک کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں۔اس لیے یہ مزاحمت گذشتہ دو دہائی سے جاری ہے۔اگر تنظیمیں نہیں ہوتیں تو ماضی کی مزاحمت کی طرح یہ مزاحمت بھی کب کا ختم ہوچکی ہوتی۔آزادی کی تحریک اسی طرح ہوتی ہے کہ تمھیں دشمن کے ساتھ اپنی مزاحمت کو طول دینا ہوتا ہے ، اسے تھکا کر شکست دینا ہوتا ہے۔ یا ایک دن اسے یہ یقین ہوجائے گا کہ بلوچ اپنی سرزمین کو طاقت کے زور پر چھوڑ کر جانے اور غلامی قبول کرنے پر تیار نہیں ، وہ مجبور ہوکر تمہاری سرزمین کو چھوڑ دے گا۔