کوئٹہ : بلوچستان میں انسانی حقوق کے سرکردہ رہنماء اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دوران جنگ گرفتار کیے گئے افراد کو جبری لاپتہ کرنے کی بجائے جنیوا کنونشن کے مطابق جنگی قیدی کا درجہ دیا جائے ۔انھیں منظرعام پر لاکر اپنے دفاع کا حق دیا جائے اور آئین و قوانین کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔
انھوں نے یہ باتیں شال میں قائم جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ شہداء کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے احتجاجی کیمپ میں اظہار یکجتی کے لیے آنے والے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
جمعے کے روز مذکورہ احتجاجی کیمپ کو 5141 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ محمد حسن مینگل ایڈوکیٹ، ضمیر چنگیزی ، کراچی سے محمد حسین اور دیگر نے کمیپ آکر جبری لاپتہ افراد سے اظہار یکجہتی کیا۔
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے پاکستانی میڈیا پر بھی شدید تنقید کی ، انھوں نے کہا کہ پاکستانی نیوز چینلز بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے غیرقانونی کارروائیوں اور عوام پر کیے گئے تشدد کو چھپا کر غیر اہم معاملات کو اچھال رہے ہیں جو پاکستانی فورسز کی معاونت کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا میں امن کی بنیاد اس پر ہے کہ ہر انسان کی عزت نفس، احترام ، آزادی ، انصاف اور برابری کے ناقابل انتقال حقوق کو تسلیم کیا جائے کیونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی خلاف ورزی کے بدترین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ایسے قوانین کا اطلاق لازمی ہے کہ جبری گمشدگیاں اور قتل عام نہ ہوں۔اگر انسانی حقوق کا احترام نہ کیا جائے اور قوانین کی پاسداری نہ ہو تو عوام جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت پر مجبور ہوجائیں گے۔
بعد ازاں ریاست اس بغاوت کو بنیاد بناکر انسانی حقوق کو سلب کریں گے جس کا محرک اس کی پالیسیاں ہوتی ہیں۔موجودہ دور میں انسانی حقوق کے اداروں کو انسانی حقوق کی پاسداری کو بنیادی مسائل سے جوڑ کر دیکھنا ہوگا تاکہ انسانی حقوق مستحکم بنیاد پر تسلیم کیے جائیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جنگی صورتحال ہے ، پاکستانی فوج اور دیگر فورسز لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت پاکستان کے ساتھ مسلح جنگ کا حصہ نہیں۔اگر ایسے افراد جو جنگی حالات یا جنگی تنظیموں سے وابستگی کے شبہ یا ثبوت کے ساتھ گرفتار ہوتے ہیں ۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کے مخصوص حالات میں ان کے ساتھ جنگی قیدی جیسا سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔