بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5096 دن ہوگئے.
اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں کراچی لیاری سے سیاسی سماجی کارکنان عدیل بلوچ، نورشاہ بلوچ، کامریڈ عاصم بلوچ اور ریحان بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہارِ یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مئی کی شروعات کراچی کے قدیم شہر لیاری میں فلمی انداز سے ہوا گولہ باری دھماکے فائرنگ سرکار ایجنسیوں اور لیاری گینگ وار کے درمیان اس طے شدہ ڈرامے میں ایک بار پھر جبری اغوا اور عام بلوچ مارا گیا- اور سیاسی خونی ریزی نے لیاری کے قدیم بلوچ آبادی کے غریب عوام کو کچل ڈالا یہ سب کچھ مار دھاڑ قتل غارت لیاری عوام کے لئے نئی باتیں نہیں- خفیہ ایجنسیوں نے بے روزگار بلوچوں میں سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچوں میں منشیات کو عام کر کے انہیں چھوٹے موٹے چوری ڈکیتیوں پر لگا دیا کن کن ناموں سے بلوچوں کے لہو کو بہاتے رہیں-
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قوم کے ہستیوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور اس پر امن جدوجہد کو ہم تک پہنچایا اب ہماری آنے والی نسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان شہدا کے لہو کو خشک نہ ہونے دیں- جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے بہائے گئے ہیں- بولان کے دامن پر ان شہیدوں کے لہو جو بہہ رہے ہیں جو تر و تازہ ہیں خوشبو کی بو آرہی ہے مرگاپ کے مقام پر آج بھی شہدا کے لہو اپنے وجودگی کی گواہی دے رہے ہیں - شیراز کے لہو ابھی تک خشک نہیں ہوئے ہیں، شہدائے پنجگور کے لہو کی بو آج بھی تر و تازہ ہے ، ڈیرہ بگٹی میں وہ اجتماعی قبریں ہماری ضمیر کو جنجھوڑ رہی ہیں شہیدوں کی روحیں ہمیں آواز دے رہی ہیں ۔ نیو کاہان کی شہدائے قبرستان میں قربان ہونے والے شہدا کی فکر اور فلسفہ حق اور سچائی کی گیت گارہے ہیں ۔ خضدار سے ملنے والے مسخ شدہ نعشیں نئی صبح کے آنے کی خبر سہہ رہیں ہیں۔ شال کے بازار میں شہید صباء کی پاک لہو ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی ہے، وہ لہو جو گمنامی کی نظر ہوگئے ان کو بھی رائیگاں جانے نہ دینے کے لئے پوری قوم کو میدان میں اترنا ہوگا اتنی لہو بہانے کے باوجود ہم پھر بھی بیگانگی کی بستر کا مہمان بنیں گے تو ہماری آنے والی نسل ہمارے قبروں پر لعنت بھیجیں گے.