بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کیمپ کو 5121 دن ہوگئے


شال بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5121 دن ہوگئے.


 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں دالبندین سے عبدالسلام بلوچ ، ظہیر بلوچ ، خدابخش بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے  اظہار یکجہتی کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت ماضی میں ایسے تمام واقعات کی تحقیقات کرتی آئی ہے اور  ایسے تمام واقعات کی معاملات میں سیکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کو رد کرتا رہاہے ۔  دوسری جانب  سیکرٹری داخلہ نے بتایا ہے کہ متعلقہ محکموں کے پاس مختلف علاقوں سے ملنے والی نعشوں کی شناخت نہیں ہوسکی انہیں عارضی طور پر دفنا دیا گیا ہے۔ 


انھوں نے کہاکہ یہ میڈیا رپورٹ ظاہر کرتی ہیں کہ جبری لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ نعشوں کے مسئلے سے پاکستانی مقتدرہ قوتیں جوابدہی کے حوالے سے اپنی جان نہیں چھڑاسکی ہیں۔ اگرچہ پاکستانی مقتد رہ کے تمام حصے اندرونی بیرونی سطح پر بلوچستان میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کیلئے لغویاں بازی سمیت میڈیا اور دیگر ذرائع کو مضحکہ خیز طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ لیکن بلوچ قومی تحریک میں جاری وسعت شدت اور جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مثالی اور تاریخ ساز جدوجہد پاکستانی مقتد رہ کی ان تمام چالوں اور کوششوں پر پانی پھیر چکی ہے۔


انھوں نے کہاکہ  طویل بھوک ہڑتال کیمپ نے بلوچستان میں نسل کشی، ریاستی جرائم کو پوری دنیا پر واضح کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے پندرہ سال جاری بھوک ہڑتال سمیت احتجاج کے تمام پرامن ذرائع کے استعمال اور بلوچ قوم کی بھرپور آواز نے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کو متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ہے ۔ 


ماما نے کہاکہ بلوچ فرزندوں کو ریاستی اداروں کے ذریعے جبری اغوا کر کے طویل عرصے تک لاپتہ کرنے اور انہیں خفیہ ریاستی عقوبت خانوں میں انتہائی سفاکیت اور نا قابل بیان تشدد کے ذریعے  شہید کرنے اور نعشیں پھینکنے کے یہ واقعات تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اصولوں اور انسانی حقوق کے کنونشنز کی رو سے نسل کشی اور جنگی جرائم کے طور پر دیکھئے جارہے ہیں -

Post a Comment

Previous Post Next Post