تربت: تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایچ آر سی پی تربت کی جانب سے تقریب کا انعقاد کیاگیا



ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام 26 جون کو تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ 


تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی مکران ریجن کے کوارڈینیٹر غنی پرواز نے کہا کہ ہرسال اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کرنا ہے۔


انھوں نے کہاکہ  تشدد کی تاریخ انتہائی قدیم ہے تشدد کی ابتداء دس لاکھ سال قبل ہوا، اور چودھویں صدی میں امیر تیمور کے زمانے میں پہلی بار تشدد خانہ اور ٹارچر سیل قائم کیے گئے۔ ستارھویں صدی میں تشدد کیخلاف جدوجہد کا آغاز کیا گیا اور اسکے خلاف مزاحمت کیاگیا۔ بیسیوں صدی میں اقوام متحدہ نے1977 میں انسانی حقوق کے ادارے نے جینیوا کانفرنس کے دوران یہ فیصلہ کیا کہ عالمی سطح پر تشدد کیخلاف عالمی دن منایا جائے۔ پہلی بار 1998میں اس دن کو مقرر کیا گیا اور 26جون کو پہلی بار عالمی طور پر اس دن کو منایا شروع کیا گیا۔


انہوں نے تشدد کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہاکہ انسان کو مادی یا غیر مادی صورت میں تکلیف دینا تشدد کہلاتاہے، جسمانی تشدد کو وائیلنس کہا جاتا ہے جبکہ ٹارچر ذہنی تشدد کو کہا جاتا ہے، لیکن بعض مفکرین نے اسے ایک کردیاہے۔


انھوں نے کہاکہ  تشدد کرنے والوں کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں جن میں پہلا مقصد تشدد کرنے والے کو جرم کا اعتراف کرانا، اسی طرح دوسروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے بھی تشدد کیا جاتاہے، جبکہ جرائم کی روک تھام کیلئے بھی تشدد  کا راستہ اپنا یا جاتاہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی تشدد کیاجاتاہے، دھمکی دینا بھی تشدد کے زمرے میں آتاہے، ریاستی سطح پر بھی مختلف ادارے تشدد کرتے ہیں عوام پر جو بہت عام ہے لوگوں کو اٹھانا غائب کرنا مسخ شدہ لاش پھینکنا، بلاوجہ روک کر پوچھ گچھ کرنا، مغربی ممالک میں خواتین مردوں پر تشدد کرتے ہیں،ریپ بھی تشدد کا ایک قسم ہے،جسمانی، جنسی، ذہنی تشدد ایم عناصر ہیں۔


 انہوں نے کہا کہ ایچ آر سی پی ہر قسم کی تشدد کے خلاف ہے۔ 

 

سیاسی رہنماء و انسانی حقوق کے کارکن خان محمدجان گچکی نے کہاکہ تشدد کے مختلف اقسام ہیں، جن میں گھریلو تشدد، سیاسی کارکنان پر تشدد، صحافیوں پر تشدد سمیت دیگر اقسام ہیں۔


 مجاھد بلوچ نے کہاکہ تشدد کیلئے دنیا میں مختلف اقسام ہیں، مقتدر قوتیں جب لوگوں کو اغوا کرتے ہیں تو ان پر تشدد کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں واش روم کے اندر کیڑے مکوڑوں کیساتھ رکھنا، زیادتی کا نشانہ بنانا، اور مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔


 ایچ آرسی پی کے کارکن محمدکریم گچکی نے کہاکہ تشدد کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کا دن تو منایا جاتاہے مگر انکے اوپر ہونے والے تشد کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہیں، انسانوں کو بنیادی ضروریات پانی وبجلی کیلئے بھی ترسانا تشدد کے اقسام میں سے ہے جسکے ہم شکار ہیں، آئے روز لوگوں کو بلاوجہ روکنا، جبری طو رپر اٹھانا یہ تشدد کے زمرے میں آتےہیں، حتیٰ کہ لوگوں کو پارٹیاں بدلنے کیلئے بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے، ریاستی سطح پر تشدد کرنے والے گروہوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ 


شہناز شبیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ گھریلو معاشرے میں ہمارے خواتین و بچے سمیت مرد بھی تشدد کا شکار ہیں کیونکہ بعض دفعہ ایسی خواتین دیکھنے کو ملتی ہیں جو مرد کی بات نہیں مانتے اور اسے بطور شوہر تسلیم نہیں کرتے یہ بھی تشدد ہے۔


 ایڈووکیٹ روستم گچکی نے کہاکہ طاقتور طبقے ہمیشہ اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے تشدد کاراستہ اختیار کرتے ہیں۔


 ایڈووکیٹ عبدالمجید دشتی نے کہاکہ تشدد کی روک تھام تب ممکن ہوگا جب ملک میں حقیقی آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوگی۔


پروگرام میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے جن میں بشیر دانش، شگراللہ یوسف، یلان بلوچ، حمل امین، یاسر بلوچ، جمال پیرمحمد، راجہ احمدخان گچکی، جمشید پرواز، منورعلی رٹہ، سجاد بلوچ، زمان خورشید سمیت دیگر شریک تھے۔


اس موقع پر پروگرام کے کوارڈینیٹر وقار بلوچ نے پروگرام کی نظامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ 


تقریب کے اختتام پر ایک قرار داد پیش کیاگیا جن میں آپسر کیچ سے اٹھائے گئے خواتین کے اغوا کی مذمت کی گئی، دوہزار سے آج تک 60 ہزار بلوچوں کو جبری طور پر گمشدہ کیاگیا ہے، ایچ آر سی پی اس کی مذمت کرتی ہے۔ یہ غیرآئینی غیر قانونی اور وحشیانہ عمل ہے لہذا تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاتاہے کہ یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ پروگرام مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچ سمیت دیگر اقوام پر تشدد کا سلسلہ بند کیا جائے۔


قرار داد پیش کرنے کے بعد ایچ آر سی پی آفس کے سامنے  مظاہرہ کیا گیا، مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اٹھائے رکھے تھے جن پر تشدد کیخلاف مختلف نعرے درج تھے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post