جھل مگسی کے باثر شخص خالد مگسی کے ایما ء پر باپ قید دوبھائی اغوا اور بہن فائرنگ میں زخمی ہوکر زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں ،پریس کانفرنس



خالد مگسی اور اسکے بیٹوں کے کہنے پر ہماری گھر پر فائرنگ کرکے مسلح افراد نے ہماری بہن خیرالنساء کو زخمی کردیا جو موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں ، مقامی انتظامیہ ملزمان سے ملا ہواہے ،یہی وجہ ہے والد صاحب جھوٹے مقدمہ  میں جیل  ہیں ،  یہ بات  ارباب جویو دختر امداد جویو سب تحصیل میر پور ، موضع کرمانی ضلع جھل مگسی  نے پریس کانفرنس دوران بتائی ہے ۔


انھوں نے پریس کانفرنس دوران خطاب میں کہاکہ 2017 میں جب میرے والد کو پتہ چلا کہ ہماری زمین پر قبضہ مافیا قبضہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں تو میرے والد اپنی زمین پر گئے جہاں خالد خان مگسی کے بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے والد نے ان سے درخواست کی کہ میں ایک غریب بندہ ہوں یہ زمین میری ہے لہذا آپ اس زمین کو چھوڑ دیں اور اپنے بندوں کو یہاں سے لے جائیں۔ لیکن ان ظالموں نے میرے والد کی درخواست کو ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ تم ایک معمولی کسان  تمہاری کیا حیثیت تم یہاں بیٹھو گے۔ اور ہمارے مقابلے میں آوگے۔اس کے بعد انہوں نے اپنے بندوں کو اشتعال دلایا کہ اس زمین کو خالی کرانے کے لئے اس بندے کو اس کے بچوں سمیت اٹھاؤ اور جان سے مار دو۔


انھوں نے کہاکہ حالانکہ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر نے زمین کا قبضہ میرے والد کو دلوانے میں کردار تو ادا کیا کیوں کہ  ریونیو ریکارڈ کے مطابق زمین  والد کے نام پر  ہے، مگر قبضہ مافیا کو ہماری زمین سے نہیں نکالا جاسکا۔ دوسری جانب ہمیں تحصیل دار کی جانب سے اپنی زمین پر 30 نومبر 2017 میں کیمپ لگانے کی اجازت دی گئی کیونکہ زمین میرے والد کے نام پر ہے۔ مگر اس پورے عرصے میں میرے والد پر تین جان لیوا حملے کئے گئے جس میں میرے والد کو شدید زخمی کیا گیا اور تیسرے حملے میں تو ان کو اتنا زخمی کیا گیا کہ ہم سمجھے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے والد کو فرسٹ ایڈ کی سہولت سے بھی محروم رکھا گیا۔


 انھوں نے کہاکہ ان  ظالمانہ حملوں کے بعد  میری بہن خیر النساء جس کی عمر 11 سال تھی کو اغوا کر کے لے گئے جسے تقریبا ایک سال تک ان اغوا کاروں نے اپنے پاس رکھا۔ اس حوالے سے جب میرے والد نے ایف آئی آر درج کروانی چاہی تو کوئی ان کی ایف آئی آر درج کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ میرے والد نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انصاف کے لئے ہر دروازے پر دستک دی مگر کہیں بھی ہماری بات نہیں سنی گئی۔تاہم  وہ  2019 میں دارالامان سے برآمد ہوئی  ۔ 


انھوں نے پریس کانفرنس دوران کہاکہ میرے والد پر قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا تاکہ اسے کمزور کیا جائے اور اسے زمین چھوڑنے کے لئے مجبور کیا جائے۔ حالانکہ جس قتل کا میرے والد پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اس وقت میرے والد سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں موجود تھے۔ اس کے بعد اس قتل کی ایف آئی آر میں میرے والد کا نام آنا سراسر جھوٹ اور ہماری زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔


انھوں نے کہاکہ میرے والد امداد جویو  کو جب اس جھوٹے کیس میں جیل بھیج دیا گیا  تو ہم  خاندان والے  2021 میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب سامنے  چار مہینوں تک احتجاج کرتی رہیں، احتجاج ختم کرنے کے چند دنوں بعد میرے والد جیل سے تو چھوٹ گئے لیکن کیس چلتا رہا۔ اس کے بعد بھی میرے والد پر لگاتار جان لیوا حملے کئے گئے اور میرے دو بھائیوں کو اغوا کر کے لے گئے اور میرے بھائی خان محمد اور غلام رسول  کو شدید زخمی کیا گیا ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ہمارے والد کو دھمکایا کہ اگر آپ زمین چھوڑ کر نہیں جاتے تو ہم آپ کے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن میرے والد اپنی آواز اٹھاتے رہے اور جب ہمارے بھائیوں کو رہا کیا گیا تو پھر سے ان پر حملے کئے گئے۔


انھوں نے کہاکہ گزشتہ ایک مہینے سے میرے والد جیل میں ہے۔ اور ان کی غیر موجودگی میں کل چار بجے ہمارے گھر پر بندوق بردار افراد نے حملہ کیا جس میں میری بہن خیرالنساء زخمی ہوگئ جسے انہوں نے پہلے اغوا کیا تھا۔ آج وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے سیدھی گولیاں چلائی جس میں کسی کی بھی جان جا سکتی تھی۔

 

انھوں نے الزام لگائی کہ  خالد خان مگسی، ان کے بیٹے سیف اللہ مگسی، احمد خان مگسی اور سالار مگسی نے ہماری گھر پر فائرنگ کروایا ہےاور   اس حملے کے بعد ہم نے انتظامیہ کو کال کرنے کی کوشش کی مگر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے ہمیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔


انھوں نے کہاکہ ہماری  بہن یا خاندان کے کسی بھی فرد کو کوئی نقصان پہنچتا ہے، کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ اور خالد خان مگسی ہونگے۔ 


  انھوں نے صحافیوں سمیت سول سوسائٹی اور دیگر انسان دوست  لوگوں و عوام سے  اپیل کی کہ  وہ انصاف کے حصول میں ہماری مدد کریں اور  آواز بنیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post