کوئٹہ : براہوئی زبان کے گلوکار استاد عبداخالق فرہاد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چند روز سے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنی مریض بہن کو لے کر جگہ جگہ پھرتا رہا۔ سول ہاسپٹل کی تباہ حالی دیکھ کر اپنی بہن کو یاسین ہاسپٹل لے گیا جہاں ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں سٹروک ہوا ہے۔ ہم ایک رات یاسین ہاسپٹل میں گزارنے کے بعد 13 جون کو بہترین علاج کی غرض سے ڈاکٹر سلیم بڑیچ کے کلینک گئے جو کہ اکرم ہاسپٹل میں موجود ہوتے ہیں۔ وہاں انہوں نے مریضہ کا چیک اپ کیا اور ہمیں یہ مشورہ دیا کہ ہم اپنی بہن کو بی ایم سی ہاسپٹل میں انہی کے وارڈ میں داخل کریں۔ ھم نے انہیں یہ بھی کہا کہ ہم اکرم ہاسپٹل میں علاج افورڈ کرسکتے ہیں ۔ مگر ڈاکٹر سلیم نے ہمیں یہی مشورہ دیا کہ یہاں کی بجائے آپ مریضہ کو بی ایم سی لے جائیں۔ ھم نے ویسا ہی کیا مگر وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سلیم ہفتے کے روز یعنی 17 جون کو وارڈ کا دورہ کریں گے اور انکی غیر موجودگی میں ڈاکٹر علی اور ڈاکٹر عصمت ترین موجود ہونگے۔ رات گزر جانے کے بعد صبح سات بجے صرف ایک بار ڈاکٹرز اور نرسوں کی ٹیم آئی اور ہماری بہن کو چیک کرکے انہوں نے ایک انجیکشن دیا۔ ہمارا یہی خیال تھا کہ انہیں علم ہے کہ مریضہ کو ہائی بلڈ پریشر اور شوگر ہے انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ علاج کیا ہوگا۔ مگر صبح سات بجے کے بعد دم توڑنے تک کسی نے آکر چیک نہیں کیا ایک نرس سے ھم نے دن میں پوچھا کہ یہ کیسا علاج ہے جس سے مریض بےھوش ہوگئی ہے اور سو رپی ہے تو نرس نے جواب دیا کہ ایسے مریضوں کے لئے نشے میں رہنا اچھا ہے۔ اسکے بعد رات تک کوئی نہیں آیا جب میری بہن کی سانس اکھڑنے لگی تو ہم نے بہت کوشش کی کہ کوئی اسکا حال دیکھنے کے لئے آئے مگر وہاں پر موجود عملہ چھپ گیا اور ہمیں یہ بھی بتانے والا کوئی نہیں تھا کہ وہ بےھوش ہیں یا دم توڑ چکی ہیں۔
ہماری بلوچستان کی غیور عوام سے یہ اپیل ہے کہ اس ناانصافی کے خلاف کھڑے ہوجائیں اور ڈاکٹروں کے اس بزنس کو ختم کریں جو سرکاری ہسپتالوں میں نوکریاں کرتے ہیں اور اپنا سارا وقت اپنے ذاتی کلینکس میں دیتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے پسپتال چلاتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو سنوارنے کے لئے غریب عوام کا قتل کرتے ہیں انکا خون چوستے ہیں یہ احتجاج صرف ایک ڈاکٹر اور اسکے سٹاف کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس رویہ کے خلاف ہے جو سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ نے اپنایا ہے۔ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں ہمارے بلوچ پشتون بھائی ہیں جو یہاں پیدا ہوئے ہیں اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں ماہر ڈاکٹر ہیں اعلی تعلیم یافتہ ہیں مگر پیسہ پرستی نے انہیں ھم سے دور کردیا ہے وہ پرائیویٹ کلینکس میں وقت دیتے ہیں اور بزنس چمکا رہے ہیں۔
ہماری یہ اپیل ہے کہ ان اعلی ماہرین ڈاکٹرز سے حساب لیا جائے اور بی ایم سی ہاسپٹل کی سول ہاسپٹل کی اندروں بلوچستان مین موجود سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ژوب سے گوادر تک بلوچستان کی پسماندگی کے نام پر جو فنڈ آتا ہے اسے عوام پر خرچ کیا جائے۔
زندگی اور موت بلا شبہ اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر یہ ڈاکٹرز اور انتظامیہ عزرائیل کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔