وڈھ میں حالات کی خرابی کے ذمہ دار سانحہ توتک میں ملوث لوگ ہیں، بی این پی کی بلوچستان بھر میں احتجاج کا اعلان



شال بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ نے

 وڈھ کو مسلح جتھوں کے حوالے کرنے  پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگانے کے خلاف    3جولائی کو بلوچستان بھر میں پہیہ جام ہڑتال 8جولائی کو احتجاجی ریلیاں اور 14جولائی کو  شٹر ڈاﺅن کا اعلان کردیا  ۔ 

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اراکین بلوچستان  اسمبلی و پارلیمانی لیڈرملک نصیر احمد شاہوانی ،اختر حسین لانگو ،اکبر مینگل ،ثنا بلوچ ،شکیلہ نوید دہوار ،پرنس آغا موسیٰ جان احمد زئی ، عبدالروف مینگل ،اور موسیٰ بلوچ کے ہمراہ پیر کے روز  شال  پریس کلب میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کیا۔


 جہانزیب بلوچ نے کہاکہ پاکستان روز اول سے مختلف بحرانوں کا شکار رہاہے پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور بلوچستان میں بسنے والوں کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ سیاسی اور جمہوری جدوجہد کرنے والوں کیلئے مشکلات کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔


انھوں نے کہا کہ  گزشتہ ایک عشرے سے غیر سیاسی قوتوں کو پروان چڑھایا گیا جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کرکے بی این پی کو سیاسی و جمہوری طریقے سے حقوق کیلئے اٹھائی جانیوالی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جس طرح سابق وزیراعلیٰ  جام کمال کے دور میں پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی، حکومت کی تبدیلی کے باوجود اس روش میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ایک بار پھر پارٹی اور اس کے رہنماﺅں اور ورکروں کو زیر عتاب رکھنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں جسکا واضح ثبوت گزشتہ 12 روز سے وڈھ میں حالات تشویشناک نہج تک پہنچا دیے گئے ہیں اور جتھوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ اپنی چوکیاں قائم کرکے علاقے میں بے امنی پیدا کریں۔


 ا نھوں نے کہاکہ مزکورہ جتھوں کو ریاست کی جانب سے  کروڑوں روپے کے بجٹ میں اسکیمات دی جارہی ہیں اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے کے بجائے اس کیفیت کو قبائلی تنازعہ کا نام دیکر سدھارنے کے بجائے حالات کو گہری کھائی میں دھکیلا جارہا ہے۔ 


انھوں نے کہاکہ وڈھ میں 9 لیویز اہلکاروں کو دوران ڈیوٹی چیک پوسٹ پر شہید کرنے کے مقدمات درج تک نہ ہوسکے جس کی وجہ سے حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے وڈھ میں لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔


 جسکا مقصد ایک بار پھر بلوچستان پر  سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے مصنوعی قیادت مسلط کرنے کی کوشش ہے ۔  جسکو کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا کیونکہ بلوچستان میں ماضی کی تاریخ ایک بار پھر دھرائی جارہی ہے اور اس حاصل کچھ نہیں ہونا بلکہ حالات مزید خراب ہونے ہیں کیونکہ بلوچستان میں روز اول سے ہی حقیقی نمائندوں کا راستہ روک کر مصنوعی قیادت کو مسلط کرکے بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کی منصوبہ بندی کرکے عملی طور پر وسائل پر ڈاکہ زنی کی جاتی رہی ہے اسلئے بلوچستان پسماندگی کی منہ بولتی تصویر پیش کرتا ہے اور لوگوں میں احساس محرومی پایا جاتا ہے۔


انھوں نے کہاکہ  توتک سے ملنے والی 259 لاشیں اور بلوچستان بھر میں 400 سے زائد سیاسی نمائندے پروفیسر ڈاکٹرز وکلاءصحافیوں سمیت مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کا قتل عام بھی قبائلی تنازعات تھے، ان تمام غیر قانونی اقدامات کے پیچھے ہی مسلح جتھے مقتدر قوتوں کی پشت پناہی سے یہاں تک پہنچنے والے جرائم پیشہ لوگ ہیں ۔ اگر انہوں نے علاقے میں غلط کاموں سے امن قائم کرنا ہے تو پھر فورسز اور اداروں پر اتنا دفاعی بجٹ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم روز اول سے ہی گزشتہ 10 سال سے بلوچستان  میں ہوانیوالی غیر قانونی کارروائیوں کیخلاف سراپا احتجاج ہوکر آواز بلند کررہے ہیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے ۔ 


ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کیلئے کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی اور وزیر داخلہ کے دورے اور بننے والی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں، خان آف قلات کے صاحبزادے پرنس محمد خان بھی مذاکرات کررہے ہیں، تاحال اس میں بھی کوئی بریک تھرو نہیں ہوا، اس لیے ہم احتجاجی شیڈول کا اعلان کررہے ہیں، ہم نے 28 جون کو ہائی ویز بلاک کرنا تھی لیکن عید کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں کیا، اب 3 جولائی کو بلوچستان بھی میں پہیہ جام ہڑتال اور 8 جولائی کو ب احتجاجی ریلیاں نکالی جائینگی اور 14جولائی کو بلوچستان میں شٹر ڈاون ہڑتال ہوگی۔


 خضدار میں بھی  بلوچستان نیشنل پارٹی ضلع خضدار کے صدر شفیق الرحمن ساسولی، مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن چیئرمین لعل جان بلوچ، ضلعی جنرل سیکرٹری عبدالنبی بلوچ، بی ایس او کے مرکزی وائس چیئرمین حفیظ بلوچ اور بی این پی تحصیل خضدار کے صدر  سفر خان مینگل ودیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے  کہا ہے کہ وڈھ میں کوئی قبائلی تنازعہ نہیں وڈھ کے حالات خراب کرنے میں وہی عناصر ملوث ہیں جو قبل ازیں سانحہ توتک اور سانحہ لیویز شہداءچیک پوسٹ میں ملوث تھے حکومتی ادارے اپنے کارندوں کے ذریعے وڈھ کے پرامن حالات کو خراب کرکے حقیقی سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے یا ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بی این پی کی قیادت نے پہلے بھی کٹھن حالات کا مقابلہ کیا ہے اور اب بھی حالات کا مقابلہ کرکے بلوچ قوم اور بلوچستان کے عوام کی خدمت جاری رکھیں گے۔ سانحہ توتک و سانحہ لیویز شہداءچیک پوسٹ کے کرداروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ 


 پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی اور بی ایس او کے مرکز ی و ضلعی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ وڈھ میں جو ہو رہا ہے وہ آج سے نہیں بلکہ کافی وقتوں سے ہورہا ہے اور ان واقعات کا پس منظر بلوچستان کی صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے والے عناصر ہیں، وڈھ کی صورتحال کو سمجھتے کے لئے ہمیں بلوچستان کی صورتحال، بلوچ قومی تحریک، بلوچ حقیقی قیادت کا بلوچ و بلوچستان کے مسائل پر اٹھنے والی آوازوں ان آوازوں کو دبانے کے لئے کی جانے والی سازشوں اور ان سازشوں میں مرکزی کردار ادا کرنے والے عناصر کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ 2012ءمیں خضدار کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا تب جا کر صورتحال سمجھ میں آئے گی، اس لیے بی این پی یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ وڈھ میں کوئی قبائلی تنازعہ نہیں بلکہ شہیدوں کے ورثاءبلوچ قوم کی حقیقی قیادت اور تخریب کاری پھیلانے والے کرداروں کے درمیان تنازعہ ہے، جس کا قبائلیت سے نہیں بلکہ انسانیت سے تعلق ہے۔ بی این پی اور بی ایس او کے مرکزی وضلعی قائدین کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ بلوچ قومی قیادت سردارا ختر مینگل کو محدود کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے، جنہیں نہ پہلے کامیابی ملی اور نہ اب کامیابی ملے گی، ہم ایسے عناصر کی پشت پناہی کرنے والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ان کی پشت پناہی کرنے کے بجائے سانحہ توتک اور سانحہ لیویز شہداءچیک پوسٹ کے کرداروں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔


 انہوں نے کہا کہ ہم پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کامیابی کا راز بھی یہی ہے لیکن ہمارے مخالفین کو ہماری پر امن جدوجہد راس نہیں آتی ہے۔


قبل ازیں بی این پی و بی ایس او کے زیر اہتمام وڈھ کی صورتحال کو خراب کرنے کیخلاف احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی۔ ریلی بی این پی و بی ایس او کے ضلعی سیکرٹریٹ سے برآمد ہوئی۔ ریلی کے شرکاءمختلف شاہراہوں سے گزرتے ہوئے خضدار پریس کلب پہنچے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post