یونان کے سمندر میں لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی ڈوبنے کے حادثے میں لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے،بتایا جارہاہے کہ 298پاکستانیوں سمیت 500 اموات کا خدشہ ہے، اب تک 100 افراد کی نعشیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ 104 افراد کو زندگی بچالیا گیاہے ۔
یونانی حکام نے اپیل کی ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے صرف والدین یا بچوں کا ڈی این اے سیمپل بھیجا جائے ، یونانی سیکیورٹی حکام نے انسانی اسمگلنگ کے الزام میں 9 مصری شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ اموات 500سے زائد ہوسکتی ہیں۔
مرنیوالوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یورپی حکام اسے بحیرہ روم کی تاریخ کا بدترین حادثہ قرار دے رہے ہیں۔
یونانی حکام کے مطابق بحیرہ روم میں ڈوبنے والی کشتی میں 500سے 700افراد سوار تھے۔
فوجی طیارے، ہیلی کاپٹر اور 6کشتیوں کے ساتھ ریسکیو آپریشن جاری ہے، ریسکیو اہلکاروں نے 104افراد کو سمندر سے زندہ نکال لیاگیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق کشتی میں 310 پاکستانیوں کے بھی سوار ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں سے 298 کی موت کا خدشہ ہے۔ تاہم یونان میں پاکستانی سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ اب تک 12 شہریوں کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
اس کشتی میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 130افراد سوار تھے جن میں 43نوجوان بھی شامل ہیں ۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ کشتی میں سیکڑوں بچے بھی سوار تھے۔
کوسٹ گارڈ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کشتی حادثہ فیول ختم ہونے یا انجن میں خرابی کے باعث پیش آیا ہوگا ۔