بلوچستان کے جہد آزادی کے حالیہ دو دہائیوں دوران بلوچ تحریک میں کئی دوست دشمن آئے بچھڑ گئے ،کسی نے تحریک کو روح پھونک دی تو کسی نے تحریک کو ناقابل فراش نقصانات سے دو چار کردیا ،کسی نے تحریک کا گلہ دبا کر اپنا الو سیدھا کرکے چلاگیا، کسی نے اپنا دھن دولت ، زمین بچے گھر سب کچھ لٹا دیا امر ہوگئے ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک میں کنگال پتی لکھ پتی بن گئے اور لکھ پتی کنگال بن گئے ۔ کسی نے تحریک میں ماں باپ کا کردار ادا کیا تو کسی نے سوتیلی ماں بن کر تحریک کو نچوڑ دیا ۔
یہ کردار گزرگئے گذر رہے ہیں گزر جائیں گے ۔ یقینا تاریخ کا حصہ بن جائیں گے کہ کس نے تحریک کو کاندھے پر بٹھا دیاتھا اور کسی نے تحریک کے اندر شعوری لاشعوری کیڑا بن کر اسے اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔
کس کس نے خاندان کو ڈھال بناکر انکی شہادت ،جبری گمشدگیوں کے قربانیوں کو خود اپنی ذات کیلے کیش کیا تھا اور بیان بازی بھی اس وقت کی جب انھیں ذاتی شہرت ملنے کا سوفیصد امید تھا ۔
ایسے کردار تحریک کا حصہ مذید بن کر اپنوں کا بلی چڑھاکر ہیرو بننے کی کوشش کریں گے اور کچھ کردار واجہ عبدالصمد سیٹھ عرف دینار جیسے بھی ہونگے جو ہر درد ماں کی طرح خود سہہ کر زمین کیلے فدا ہوجائیں گے ۔ جس طرح انھوں نے اپنی ہی زندگی دوران اپنا تن من دھن سب کچھ حتی کہ لہو بھی وطن کیلے نچھاور کرکے چلے گئے ۔ انھوں نے زندگی میں کبھی اف تک نہیں کیا نہ ہی احسان جتائی اور میں کے گرد گھوما ، وہ ہم بن کر جیتا ہم بن کر امر ہوگئے ۔
وہ سب کیلے تھا اور سب کا ہوگیا ، جس طرح وہ جہد دوران ہر ایک ساتھی کیلے ماں جیسی سوچ رکھتا تھا، اور انھوں نے چھوٹے ساتھی کو کبھی احساس ہونے نہیں دیا کہ آپ چھوٹے ہو اور بڑے کو یہ احساس نہیں دیا کہ آپ بڑے ہو
اس لئے آپ کی چاپلوسی مجھ پر لازم ہے ۔
وہ حسب معمول سب سے پہلے الصبح خود نیند سے اٹھ کر چائے ناشتہ تیار کرکے ہر ایک چھوٹے بڑے ساتھی کو پیار سے جگا کر آگاہ کرتے کہ ناشتہ تیار ہے ۔ وہ کبھی کسی کو احساس ہونے نہیں دیتے کہ آپ کمتر یا برتر ہیں ۔ وہی ماں والی شفقت پیار ہر وقت ان کے ماتھے پر جگمگاتا تھا ۔
کسی بھی سرمچار ساتھی کا درد اپنا درد سمجھتے تھے انکے نزدیک سب اپنے تھے یہ نہیں تھا کہ یہ بھتیجا ہے فلاں ساتھی میرا رشتہ دار ہے فلاں ساتھی دور کا رشتہ دار ہے ۔ انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اچھی بندوق موٹر گاڑی میری بھائی بھتیجوں کو دی جائے ،بلکہ وہ ہر وقت یہ سوچتے تھے کہ جس ساتھی کو اس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کے ساتھ جچتاہے وہی استعمال کرنے کا حقدار ہے ۔
آپ بیمار ساتھیوں کی دیکھ بحال علاج معالجے میں بھی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے انھوں نے کبھی نہیں کہاکہ جو میری جیب میں ہے وہ صرف میرا ہے،اس پر سب کا حق تھا ۔مقصد منزل یہ تھا کہ کسی طرح بھی بیماری کو روکا جائے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں ایک کمی تھی جو خود کے ساتھ انصاف نہیں کرتے خود اکیلے دکھ درد تکیلف سہتے دوست کو بھنک تک لگنے دیتے ۔
ایسے کردار کو لاکھوں سلام ۔
ہمیں اگر بلوچ تحریک کو ہر وقت پھلتا پھولتا دیکھنا ہے تو ہر ایک کو واجہ دینار بن کر جہد کا حصہ بننا ہوگا اس میں پھر یہ نہیں دیکھنا ہوگا میری زندگی میں ہی مجھ وہ سب کچھ ملے جو مرنے کے بعد ملتا ہے ۔