بلوچ لاپتہ افراد برسوں بعد بھی بازیاب نہ ہوسکے،عمران کوایک گھنٹے میں چھوڑ دیاگیا،اختر مینگل



بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پاکستان میں کشیدہ حالات کی ذمہ داری سیاستدانوں سمیت، عدلیہ اور ملٹری و سول اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کے روزپارلیمنٹ کے مشترکہ اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ اس ملک میں جو واقعات ہورہے ہیں، سوچنا یہ ہے کہ یہ ہوا کیسے ہم سب سروں پر ہاتھ رکھ کر یہ گانا گا رہے ہیں کہ یہ کیا ہوا کیسے ہوا اور کب ہوا۔


انھوں  نے کہا کہ آج کے حالات دیکھ کر ہنسنا تو ہمارا بھی حق بنتا ہے جن حالات کی نشاندہی ہم پچاس ساٹھ سال پہلے کرتے تھے اس وقت سب ہم پر ہنستے تھے اور اس وقت آپ ہم پر غداری کی تہمت لگاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی آبادی کے ساتھ ساتھ آپ کے غداروں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے صرف عدلیہ نے نہیں اس پارلیمنٹ نے بھی دوہرا معیار اپنایا ہوا ہے۔ ہمارے اکابرین کو جیل میں رکھا گیا اسی شاہراہِ دستور پر بلوچستان سے مسنگ پرسنز کے لواحقین آئے تھے ان ججوں کو ان بچوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ان کو تو کسی بھی جج نے جاکر تسلی نہیں دی جبکہ عمران خان کو تو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں تو ائیر گن چلانے سے پہلے سوچتے ہیں کہ یہ ہمارا بھائی ہے کیا بلوچستان والے آپ کے بھائی نہیں ہیں ۔ہماری جھونپڑیاں اور کچے مکانات تک نہیں بخشے گئے ،آج انصاف کا معیار یہ ہے کہ کسی کو کہا جاتا ہے کہ گڈ ٹوسی یو اور کسی کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم پرستوں نے کراچی میں احتجاج کیا کوئی انصاف نہیں ملا ۔اسی طرح ایم کیو ایم کے لوگ اٹھائے گئے مگر بازیاب نہیں ہوئے جبکہ انہیں مرسڈیز میں لایا جائے گا اور گیسٹ ہائوس میں رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کہا تھا ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے ہم سب اب ذمہ دار ہیں اور قربانیاں دینی پڑیں گی۔ پچاس ججز، پچاس سیاستدان اور پچاس جرنیلوں کو سرعام لٹکایا جائے۔

اختر مینگل نے کہا کہ آج لہجوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں کیونکہ صورتحال ایسی ہے آج حالات اس نہج تک پہنچے تو وہ کیسے پہنچے؟ یہ صورت حال ایک دن کی پیداوار نہیں ہے، یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ یہ کئی دہائیوں سے پیدا کردہ صورتحال ہے، مختلف اوقات میں اژدھا پیدا کئے گئے 

Post a Comment

Previous Post Next Post