بلوچ سر زمین اس ریاست اور ان کے حکمرانوں کیلئے تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ,این ڈی پی



بلوچ قوم کے مرضی و منشا اور تحقیق کیے بغیر راسکوہ کے پہاڑ کو بھسم کر دیا گیا یہ بات 

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے یوم آسروخ کی مناسبت سے  بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے ۔ انھوں نے کہاہے کہ6  اگست 1945 سے پہلے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تباہی سے انجان دنیا نے پہلی بار جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں اس سے پھیلنے والی تباہی کا  منظر دیکھا۔ جب کہ اس سے قبل 16 جولائی 1945  امریکہ کی ریاست نیو میکسیکو کے ایک گاؤں کے رہائشیوں نے اس کے ٹیسٹ کے تجربے کے دوران کا منظر بھی دیکھا جسے اس وقت تو سمجھ نا سکے مگر  اٹھتر سال بعد آج بھی  انکی اولادیں  اس دھماکے کے اثرات کو محسوس کرتے ہیں۔ جس طرح وہ  دنیا کی تاریخ میں امر ہو چکے ہیں بلکل اسی طرح 28 مئی بلوچستان کی تاریخ میں امر ہو چکا ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ 


 ترجمان نے کہاہے کہ آج سے پچیس سال قبل چاغی و خاران کے درمیان واقع راسکوہ کے سینے میں مطلق العنان حکمرانوں نے بلوچوں کے منشا اور ان کی پرواہ کئے بغیر ایٹمی دھماکہ کیا  جس کے بعد کے تابکاری کے باعث پیدا ہونے والی مضر صحت اثرات سے آج بھی بلوچستان کے کئی اضلاع دوچار ہیں، جہاں آب و ہوا کی زہر آلودگی کے باعث مختلف مہلک بیماریاں بلخصوص کینسر، ہیپاٹائیٹس، تھلسیمیا، جلد کے امراض ، گلے اور دمے کے بیماریوں میں  اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسکے اثرات سے قریبی علاقوں میں زیر زمین پانی بھی شدید متاثر ہو چکا ہے،  بارانی نالوں سمیت چشمے خشکی کی نظر ہو چکے ہیں، زراعت اپنی دم تھوڑ چکا ہے انگور، انار، کھجور کے باغات، پیاز کے فصلات سوکھ گئے ہیں جبکہ ماحولیاتی تبدیلی سمیت جنگلی حیات اور لوگوں کے مال مویشیاں  شدید متاثر ہیں، جبکہ علاقے میں انسانی بنیادی سہولیتیں بھی میسر نہیں۔ایٹمی دھماکے کے بعد بلوچستان میں کینسر کی مرض میں واضح اضافہ ہوا ہے صرف کوئٹہ کے ایک ہسپتال کے مطابق سالانہ 6000 کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں جبکہ بلوچستان کی اکثر آبادی کراچی شہر کو قریب اور با سہولت سمجھ کر وہاں کا رخ کرتی ہے جہاں کے مریضوں کی تعداد کا حساب لگانا مشکل ہے ۔ 


انھوں نے کہاہے کہ استعماری حکمرانوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تابکاریاں اور مہلک بیماریوں کے پھیلنے کے حوالے سے تحقیق کیے بغیر راسکوہ کے پہاڑ کو بھسم کر دیا اور  اختر مینگل ہی اس وقت وزیر اعلی تھے اور اس کی پارٹی برسر اقتدار میں تھی، جس نے بیان جاری کیا تھا  انہیں اس ٹیسٹنگ سے لا علم رکھا گیا تھا اب ان پر بھاری ذمہداری عائد ہوتی ہے کہ راسکوہ اور گردونواح نواح کے علاقوں میں ٹیسٹ  کروائیں تاکہ تابکاری کے باعث پیدا ہونے والی زہر آلودگی کو سمجھ کر اسکے اثرات سے چٹکارا پانے کی کوشش کیا جا سکے۔ وگرنہ آج کے دن تک بلوچ قوم سردار اختر جان مینگل اور ان کے پارٹی کو شریک جرم سمجھتی ہے. 


بی این ڈی پی نے کہاہے کہ ہم سمجھتے ہیں بلوچ سر زمین کو  اس ریاست میں تجربہ گاہ کی حیثیت حاصل ہے، جس طرح ایٹمی دھماکوں کے تجربے کے لئے بلوچستان کا راسکوہ کام آتا ہے تو میزائلوں کے تجربے کے لئے سونمیانی۔ اس بلوچستان کے سینے سے نکلتا سیندک ہو یا ریکوڈک کے ذخائر، گوادر کا سمندر ہو یا پھر بلوچ سر زمین سے نکلنے والا پتھر جو اس ریاست کی باگ دوڈ سنبھال رہے ہیں مگر بلوچ  کے سماجی حالات میں بہتری کے لئے انکا کوئی کردار نہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post