بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، اسلام آباد کے ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا کہ روز بہ روز بلوچستان کے علمی ماحول میں دشواریاں اور خوف پیدا کرنے کیلئے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت بلوچ طُلباء کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہاہے۔ گزشتہ دہائی سے اس پالیسی میں کمی لانے کے بجائے مزید تیزی لائی گئی ہے۔ پچھلے دو دہائیوں سے بلوچ طُلباء اور درس و تدریس سے جُڑے بلوچ دانش کو اس طرح کی سخت اور کٹھن حالات کا سامنا ہے۔ واضح طور پر بلوچ دانشور،صحافی،پروفیسر،طُلباء سب اس ظلم کا شکار ہیں اور رہے ہیں ۔ بلوچستان میں علم و روشنی کے تمام دروازوں کو بند کرنے کیلئے جاوید بلوچ جیسے روشن اذہان اور طُلباء کو زندان اور تاریکیوں کی نظر کیا جارہاہے۔ نیز ان تمام واقعات کے پیچھے ایک ریاستی پالیسی لاگو ہے جنہوں نے نہ کبھی بلوچ کیلئے علم کو قبول کیا ہے اور نہ ہی آگے چل کر کریں گے، بلکہ بلوچ طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں میں مزید کٹھن لانے اور دوسرے تمام راستوں کو بند کرنے کے در پہ ہیں ۔ جاوید بلوچ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ جاوید بلوچ جیسے ہزاروں طُلباء دہائیوں سے اسی طرح کی ظُلم کا شکار ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ جاوید بلوچ کو بلوچستان کے علاقے ضلع خضدار سے کل صبح دس بجے ان کی اپنی دکان سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ جاوید بلوچ جیسے پُرامن طُلباء کو فورسز کی تین گاڑیوں میں سوار سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد بنا کسی ایف آئی آر کے اٹھاکر زبردستی جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہیں، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ جاوید بلوچ ایک علم دوست انسان ہیں اور اسی علم کی پیاس کو بجھانے کیلئے وہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں زرعی یونیورسٹی میں شعبہء آرٹیکلچر میں داخلہ میں لیتے ہیں، تاکہ اپنی تعلیمی و علمی عمل سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بلوچستان بالخصوص خضدار جیسے شہر میں بچوں کو پڑھا سکیں. اور وہاں اپنی تمام تَر علمی کاوشوں کے ساتھ پڑھا رہے ہوتے ہیں، لیکن کل مورخہ 4 مئی 2023 کو وہ بھیانک ماضیِ بلوچ کی طرح جبری گمشدگی کے سلسلے کا شکار بن جاتے ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ جاوید بلوچ کو جلد از با حفاظت بازیاب کیا جائے۔ اس طرح غیر انسانی طریقے سے کسی کو زندانوں کی نظر کرنا غیر آئینی عمل ہے ۔ اس سے پہلے بھی بی ایس سی، اسلام آباد نے اس طرح کے واقعات پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے ادارے اس طرح کی المیوں کا نوٹس لیں۔ اگر اسی طرح حالات ابتر ہوتے گئے تو بلوچ طلباء مزید کوفت اور ذہنی دباؤ کا شکار رہیں گے۔ بلوچ طُلباء کو پُر امن اور پُرسکون ماحول میں درس و تدریس کے عمل کو جاری رکھنے دیا جائے۔