آئینی حقوق کیلئے جدو جہد جاری رکھیں گئے۔ تربت یونیورسٹی کے طلباء کا پریس کانفرنس



تربت: کل رات یونیورسٹی کی طرف سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے ہم کل کے یونیورسٹی آف تربت کے موقف کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ۔

یونیورسٹی کے لگائے گئے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں ۔

ہمارا احتجاج مکمل طور پر امن تھا اور کسی بھی اسٹاپ کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار نہیں کیا گیا ہے یونیورسٹی کے تمام اساتزہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ اور کسی قسم کا اشتیال اندازی نہیں کیا گیا یونیورسٹی میں موجود سکیورٹی کیمرہ کی زریعے تمام ویڈیوز کو منظر عام پر لائے اور ثابت کرے کہ اسٹوڈنٹس مشتعل تھے۔


پچہلے پانچ سے ساتھ مہینوں سے یونیورسٹی میں مسلسل طلباء کے بنیادی حقوق پر احتجاج وقتًا پہ وقتاً ہوتے رہے۔

متحد بار طلباء کے جملہِ مسائل پر یونیورسٹی آف تربت کے انتظامیہ کو (written form) اسٹوڈنٹس کے مسائل سے آگاہ کیا۔

مگر یونیورسٹی آف تربت کے وی سی سمیت دیگر انتظامیہ کو کرپشن سے فرصت ملے تو طلباء مسائل پر کان دھریں۔

یونیورسٹی آف تربت کی غیر زمہ دارانہ رویہ کے خلاف سینکڑوں طلباء نے اپنے آئینی بنیادی حقوق کیلئے جب پر امن احتجاج کیا تو تربت یونیورسٹی کے زمہ داران پروپیسر صاحبان موجودگی میں رجسٹرار صاحب نے ان مطالبات کو جائز مان کر ان دستاویزات پر دستخط کیے اور ان کو پندرہ دن کے اندر حل کرنے کی یقین دیانی کی۔

اس یقین دیانی کے بعد متحرک طلباء کو پرو وائس چانسلر نے نومینیٹ کیا اور خود ساختہ ڈسپلنری کمیٹی کی جانب سے بلیک میل اور ہراساں کیا گیا اور باقاعدہ ڈسپلنری کمیٹی کی جانب سے مسنگ کرنے کی دھمکی دی گئی جو ایک تشویش ناک عمل ہے۔

متحد بار ڈسپلنری کمیٹی کی طرف سے اسٹوڈنٹس کو طلب کیا گیا اور متحد بار اسٹوڈنٹس ڈسپلنری کمیٹی میں پیش ہوتے گئے لیکن ڈسپلنری کمیٹی کا مقصد ایک ہی تھا جس میں طلباء کو ہراساں کرنا اور دھمکیاں دینا شامل تھیں۔

ڈسپلنری کمیٹی نے چھ اسٹوڈنٹس کا ریزلٹس غیر قانونی روک کر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔

اس مسئلے پر پچھلے احتجاجی دھرنے پر آل پارٹیز اور میڈیا پرسنز کی موجودگی میں مزکورہ طلباء کا رزلٹس اعلان کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ پانچ ماہ گزرنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔

مزکورہ طلباء باشمول دیگر طالبات کے ساتھ پر امن اور اپنے جمہوری اور بنیادی حق سے احتجاج کرنے میں مجبور ہوگئے۔ 

کل تمام اسٹوڈنٹس نے رضاکارانہ طور پر اپنے کلاسز کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے ساتھی طالب علموں سے اظہار یکجہتی کی جس پر یونیورسٹی انتظامیہ بو کلھاہٹ کا شکار ہوگیا اور اونچے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آیا اور یونیورسٹی کو جبراً بند کیا اور گرلز اور بوائز ہاسٹل کو جبراً خالی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کی ہم شدید الفاظ سے مزمت کرتے ہیں کہ نوٹیفیکیشن کو کینسل کرکے تعلیمی سرگرمی کو دوبارہ جاری کرکے یونیورسٹی کھول دی جائے۔


موجودہ ڈسپلنری کمیٹی جس کی سربراہی پرو وائس چانسلر اور دیگر کررہے ہیں جسے ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور گورنر بلوچستان و چانسلر تربت یونیورسٹی جناب  ملک ولی کاکڑ  سے مطالبہ کرتے ہیں ایک اعلیٰ کمیشن تشکیل دی جائے جو یونیورسٹی کے تمام مسائل بالخصوص اسٹوڈنٹس کے موجودگی اشوز تحقیقات کا کرے جس کے سامنے ہم تمام مزکورہ طلباء پیش ہونے کے لیے تیار ہیں اور کمیشن تحقیقات کے بعد رپورٹ مرتب کرے اگر اسٹوڈنٹس کے تام مطالبات ناجائز اور غلط ہیں تو ان پر کمیشن کاروائی کا مجاز ہوگا اور اگر یہ سابت ہوا یونیورسٹی انتظامیہ بدنیتی پر انتقامی کاروائیوں پر ملوث ہے تو ان کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جائے۔ 

اگر نام نیاد ڈسپلنری کمیٹی نے جس کی سربراہی پرووائس کررہا ہے اگر مزید کوئی انتقامی کارروائی بلیک میل و حراساں کرنے اور تعلیمی کیریئر پر کھلواڈ کرنے کی کوشش کی تو ہم مزید سخت ترین لاحہ عمل اور تادم مرگ بھوک ہڑتال پر جاسکتے ہیں جس کی زمہ دار وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر ، رجسٹرار اور دیگر خود ساختہ ڈسپلنری کمیٹی کے ممبران ہونگے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post