وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری ، بلوچ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین بلوچ نے اپنے جاری بیان میں نجمہ دلسرد کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "نجمہ بلوچ ایک قابل پڑھی لکھی عورت ہونے کے ساتھ اپنےعلاقے میں بطور ٹیچر پڑھاتی تھیں،
انھوں نے کہاہے کہ ریاستی بندوق ہاتھ میں تھامے نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ لوگوں کی کمائی، انکی بھیڑ بکریوں کے ضبط کرنے اپنی عیاشیوں سے لیکر سرکاری و ذاتی مفادات کی خاطر جب چاہیں جس سے چاہیں اپنی من مرضی میں کسی کی زندگی اجیرن کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ آواران سے تعلق رکھنے والی نجمہ بلوچ کو ہراساں کرنے اوربلیک میلینگ سے اس حد تک زہنی دباؤ کا شکار بنایا گیاکہ وہ خودکشی کرنے پرمجبور ہوئیں ۔
سمی دین نے کہاہے کہ یہ ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے سرکاری سرٹیفکیٹ یافتہ اہلکار سرکاری پیشہ ور خواتین کو ہراساں کرنے اور بطور مخبر کام کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں.
انھوں نے کہاہے کہ ہمارے اپنے گاؤں مشکے گرلز اسکول میں روزانہ آرمی کے اہلکار اسکول میں داخل ہوکر باپردہ خواتین سے گھنٹوں غیرضروری باتیں اور ذاتی سوالات کی بوچھاڑ کرکے انہیں ہراساں کرتے رہتے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ جنگ میں ہر واقعہ کو جائز قرار دینے والے اداروں سے کہنا چاہتی ہوں کہ ایسے رویے ناقابل قبول ہیں
حکومت اس پر نوٹس لیکر کاروائی کرے۔