کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5034 دن ہوگئے





کوئٹہ : بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5034 دن ہوگئے، کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے کیلئے آنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ، وائس چیرمین بابل بلوچ، بی ایس او مینگل کے زونل صدر کامریڈ اسرار بلوچ، سی سی ممبر صمند بلوچ، شکور بلوچ اور دیگر نے شرکت کی


 وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیر یا عمل بلا وجہ نہیں ہوتا ہر عمل کسی نہ کسی سے منسلک ضرور ہوتا ہے ہر عمل کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اج بھی وہ بےبس مائیں بہنیں سڑک پر بیٹھ کر جہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے لیکن وہ درد بھری نگاہ سے وہاں سے گزرتے ہیں ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھنے لگھ جاتی ہیں۔ جن کے چہروں پر قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں مست اور ایک الگ دنیا میں مگن ہیں۔ شائد وہ مائیں اور بہنیں بھی سوچنے لگ جاتی ہیں کہ کاش زندگی ایک کتاب ہوتی جسکے صفحات پلٹتے ہی وہی پچھلے دن آجاتے۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہرگز نہیں جب انسان غلامی کی زنجھیروں سے جدجہد حاصل نہیں کر سکتا وہ غلام اور محکم قوم ہے ہماری غلامی اور بےبسی کا اندازہ ہخوبی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اج ہمارے سامنے بلوچ قوم کی بہادر اور بے بس مائیں بہنیں ہیں۔ اج ہمیں اپنی اہمیت اور غلامانہ حیثیت کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اس ریاست نے ہمیں اس قدر لاچار کیا ہے اس قدر ہمیں کچلھنے اور دبانے کی بےہد کاروائیاں کی ہیں۔ اج ہم بلوچون کا ضمیر کیوں نہیں جگھتا ہم ظلم کے خلاف اواز کیوں نہیں اٹھاتے اج ہمیں اپنی قومی ثقافت لسانی پہچان اور قبضہ گیر کے خلاف اور اپنے وسائل کے لئے ظالم استماری قوتوں کے خلاف پرامن جدجہد کرنا چاہئے۔ ماما قدر بلوچ نے کہا کہ کیا یہ وقت اب بھی سونے کا ہے ہمارے سامنے بےبس مائیں بہنیں اج بھی درد اور تکلیف میں مبتلا ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی غیرت نہیں جاگتی  اٹھو ہمیں ہماری مائیں بہنیں پکار رہی ہیں۔ اٹھو تمہاری غیرت ننگ ناموس نیلام ہو رہی ہے۔ اگر پھر بھی غیرت نہیں جاگتی تو اپنی مائوں اور بہنوں کی درد بھری پکار سنو جو بے کناہ پیاروں کے انتظار میں ہیں۔ پھر بھی اج ہم خاموش بیٹھ کر محض تماشائی بنے یا صرف بلوچیت کا دعوا کرتے ہوئے بس مسخ شدہ لاشیں دیکھیں اور انھیں کندھا دیں یا بلوچ ہونے کا حق ادا کریں۔ اپنے ان بائیوں کی خاطر جو اج بھی ٹارچر سیلوں میں غیرانسانی تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ کیا یہ وقت خاموش رہنے کا ہے.

Post a Comment

Previous Post Next Post