جرمنی: بی این ایم کا بلوچستان میں پاکستانی نیوکلیئر ٹیسٹ کے خلاف احتجاج




گوٹنگن، جرمنی: بلوچ نیشنل موومنٹ نے پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں کیے گئے جوہری تجربات کے خلاف جرمنی کے شہر گوٹنگن میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور ریلی نکالی۔


 مظاہرین نے کہاکہ بلوچستان کی عوام 28 مئی کو ہر سال یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ اس تاریخ کو 1998 میں، پاکستان نے بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کیا، جس کے خطے میں سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ ایٹمی تابکاری نے بلوچستان کے لوگوں کو کئی دائمی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے۔ بہت سے بچے پیدائشی طور پر معذور ہوئے، اور بلوچستان میں کینسر اور جلد کے امراض جیسی بیماریاں عام ہوگئیں۔


انھوں نے کہاکہ 28 مئی 1998 کو پاکستان کی طرف سے ایٹمی تجربات کے لیے بلوچستان کا انتخاب طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا تھا۔ کیونکہ بلوچستان پاکستان کی کالونی ہے، اس لیے ہمارے مادر وطن کی روح کو مجروح کرنے اور بلوچستان کو جلتی ہوئی جہنم میں تبدیل کرنے کے لیے ایسا گھناؤنا جرم کیا گیا۔ بی این ایم جرمنی کے صدر اصغر علی نے کہا کہ ان جوہری تجربات کے اثرات پریشان  کن ہیں۔ ان ایٹمی تجربات کے چاغی کے علاقے میں منفی اثرات نمایاں ہیں اور علاقہ مسلسل خشک سالی کا شکار ہے۔ چاغی میں لوگ جلد کی بیماریوں اور پیدائشی معذوری کے شکار ہیں۔ بلوچستان کی معیشت کی لائف لائن لائیوسٹاک بہت زیادہ متاثر ہوا ہے: جانور ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں۔


انھوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور دیگر ادارے بلوچستان میں ایک ٹیم بھیجیں اور سروے کریں تاکہ بلوچستان میں پاکستان کے جوہری تجربے کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔


بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی چیپٹر کے نائب صدر سمل بلوچ نے کہا کہ جوہری تجربات پوری عالمی برادری کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کے دور رس نتائج ہیں، جو نا صرف ماحول بلکہ بے شمار افراد کی زندگیوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج کا بلوچستان میں جوہری ہتھیاروں کا تجربہ عالمی تخفیف اسلحہ کی کوششوں کے لیے  بین الاقوامی برادری کے عزم پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔


انھوں نے مزید کہا، "بلوچستان، ایک خطہ جو پہلے ہی متعدد سماجی و سیاسی چیلنجز سے دوچار ہے، اب اس پر جوہری تجربہ گاہ کا بوجھ بھی ہے۔ ان تجربات کے نتائج صرف قریبی ماحول تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ سرحدوں کے باہر تک پھیلے ہوئے ہیں، جو پڑوسی ممالک اور مجموعی ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ انسانی صحت، ماحولیات اور فطرت کے نازک توازن کے لیے ممکنہ خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔


انھوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا، "پاکستانی فوج کی طرف سے بلوچستان میں جوہری تجربہ صرف ایک مقامی یا علاقائی تشویش نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو ہماری فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ ہمیں شفافیت، جوابدہی اور تخفیف اسلحہ کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہمیں جوہری تجربے کے تباہ کن نتائج سے پاک ایک محفوظ اور زیادہ پرامن دنیا بنانے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔


بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی چیپٹر کے جوائنٹ سیکریٹری شرحسن نے کہا کہ آج بھی دنیا کے لوگ بلوچستان کی زمینی حقائق سے ناواقف ہیں۔ پاکستان نے بلوچستان میں ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ کر کے بلوچستان کے عوام کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی صورتحال کا نوٹس لے۔ عالمی اداروں، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو پاکستان پر مسلسل نظر رکھنی چاہیے۔ انھیں پاکستان کی مالی مدد نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنا چاہیے۔


انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے عوام اس وقت مکمل صدمے میں تھے جب پاکستان نے بلوچستان میں اپنے گھناؤنے ایٹمی دھماکے کیے۔ راسکوہ کا کالا پہاڑ دھماکوں سے سفید پڑ گیا، بی این ایم-جرمنی کے سابق جوائنٹ سیکرٹری ندیم سلیم بلوچ نے اس کے نتیجے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے جن میں سے چار ایک سے دو کلوٹن تھے۔ راسکوہ میں کیا گیا  ایٹمی دھماکہ 40 کلوٹن تھا۔ انھوں نے IAEA اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں ایک غیرجانبدار ٹیم بھیجیں اور اس کے اثرات کی گہرائی اور پھیلاؤ کا جائزہ لیں۔


بلوچ نیشنل موومنٹ کے رکن شلی داد بلوچ نے کہا کہ 28 مئی 1998 سے آج تک بلوچستان کے لوگ مہلک بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ مویشی اور زراعت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ لوگ جلد کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان ایٹمی تجربات سے پہلے لوگوں کے پاس روزی روٹی کے کافی ذرائع تھے لیکن ایٹمی دھماکے نے انھیں تمام ذرائع سے محروم کر دیا۔ اس علاقے میں اب بارش نہیں ہوتی جیسا کہ پہلے ہوا کرتی تھی اور علاقہ بنجر ہوچکا ہے۔


انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اس کے قبضے میں موجود مہلک ایٹم بم دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ چاغی میں ہونے والے ایٹمی تجربے نے راسکوہ کے پہاڑ کو ایٹمی فضلہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور مہلک بیماریاں پھیلائیں۔ہماری درخواست ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر پابندی لگائی جائے کیونکہ پاکستان نے چاغی میں ایٹم بم کا تجربہ کرکے بلوچستان میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔


بلوچ نیشنل موومنٹ کے رکن احمد بلوچ نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے پاکستان نے 1948 میں بلوچستان پر دھوکے سے قبضہ کیا ہے تب سے وہ بلوچ عوام کو کسی نہ کسی طریقے سے دبانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ بلوچستان کے لوگ جو پچھلی سات دہائیوں سے منظم طریقے سے پسماندگی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور پتھر کے دور میں جی رہے ہیں۔ ممالک غیر آباد علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں مگر پاکستان نے اس کے برعکس کیا۔ ایک محتاط تحقیق کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں راسکوہ پہاڑی سلسلے کو مکمل تباہ کردیا۔ اس تباہ کن سانحے کو دو دہائیاں گزرنے کے باوجود بلوچستان میں تابکاری کے اثرات کا ابھی تک مطالعہ نہیں کیا جا سکا ہے۔


بلوچ نیشنل موومنٹ چاغی میں جاکر جوہری تابکاری پر تحقیق کرنے کے لیے ایک  عالمی تحقیقی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ پاکستان کو بلوچستان میں اپنے غیر ذمہ داران ایٹمی تجربات کے لیے سخت سزا دی جانی چاہیے، جو بلوچستان کے لوگوں کے لیے نا ختم ہونے خطرات لے کر آیا۔ اس کے سنگین نتائج کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ اور پاکستان کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post