فلاحی ریاست کے بغیر سماج منتشر ہوجاتا ہے ، بی این ایم تربیتی پروگرام سے فہیم بلوچ کا اظہار خیال



بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے تربیتی پروگرامات کے سلسلے میں ’ فلاحی ریاست‘ کے عنوان سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض بی این ایم نیدر لینڈز کے ممبر کھور بلوچ نے انجام دیے جبکہ منتخب موضوع پر سینٹرل کمیٹی کے ممبر فہیم بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انھوں  نے کہاکہ فلاحی ریاست کے تاریخی پس منظر ، تعمیر و ترقی کے لیے اس کی اہمیت و افادیت اور  بی این ایم کے منشور کے مطابق بطور فلاحی ریاست مستقبل کے  آزاد بلوچستان کے تصور پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں صرف بیس کے قریب کے ممالک ایسے ہیں جو فلاحی ریاست کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ ان میں سے بھی اکثریت یورپی ممالک ہیں۔

انھوں نے کہا کہ دور جدید میں ہم فلاحی ریاست کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ آج مشرق وسطی کے ممالک بھی فلاحی ریاست کی جانب گامزن ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اپنی ریاستوں کو فلاحی ریاستوں میں تبدیل کریں تاکہ عوامی اور ریاستی مسائل کے حل میں مشکلات درپیش نہ ہوں ۔ اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ جن ریاستوں میں عوام کو تحفظ اور سہولیات میسر ہوتے ہیں  یا ان کے مسائل حل ہوتے ہیں وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ترقی صرف فلاحی ریاست کے ذریعے ہی ممکن ہے اس کے برعکس سماج میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ غیر فلاحی ریاستوں میں عوام کو دیوار سے  لگایا جاتا ہے اور وہاں ترقی ناپید ہوتی ہے ۔

فہیم بلوچ نے کہا کہ بی این ایم بلوچستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے۔پارٹی میں ویلفیئر سیکریٹری کا انتخاب اور ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا قیام اس بات کا عندیہ ہیں کہ پارٹی اپنے مستقبل کے پروگرام کے لیے مکمل تیار ہے۔

آخر میں انھوں  نے کہا کہ  بلوچ سماج بھی اپنے آپ میں ایک فلاحی سماج ہے۔اس کے باوجود کہ قابضین نے گذشتہ ایک سو اسی سالوں میں ہمارے سماجی اقدار کو مسخ کیا لیکن اس کے باجود ہماری روایات میں بعض ایسی چیزیں  ہیں جو فلاحی ریاست کے تصور سے مطابقت رکھتی ہیں۔اس سے ہمیں اپنے تابناک مستقبل کے لیے بلوچستان کو فلاحی ریاست بنانے میں آسانی ہوگی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post