بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے گیشکور سے آنے والے اطلاعات پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے دیہاتی علاقوں میں تعینات فورسز کے اہلکار ظلم، جبر اور ناانصافی کی تمام حدود پار کر رہے ہیں اور آئے دن بلوچستان بھر سے ایسے انگنت واقعات رونماء ہو رہے ہیں جو نا صرف بلوچ تہذیب اور کلچر کے خلاف بلکہ انسانیت کو بھی پاؤں تلے روندنے کا موجب بن رہے ہیں۔ حالیہ دنوں گیشکور میں ایک معزز خواتین کو سرکاری اداروں کیلئے کام کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی جس نے بارہا مزاحمت کرتے ہوئے اس سے انکار کیا لیکن مسلسل انہیں تنگ اور ذہنی طور پر ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا جسے بعدازاں وہ برداشت نہ کرتے ہوئے خودکشی پر مجبور ہوا لیکن یہ کسی بھی طرح خودکشی کا واقعہ نہیں بلکہ ایک صاف قتل ہے جس کے زمہ دار فورسز کے اہلکار اور وہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے شہروں سمیت فورسز کی ایک بڑی تعداد گاؤں میں تعینات ہے اور وہاں انہوں نے مقامی لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دی ہے۔ آئے دن لوگوں کو کیمپ میں بلایا جاتا ہے، ان کو اپنے لیے کام کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، معزز خواتین کو کیمپ بلایا جاتا ہے بلکہ ایسے سنگین غیر انسانی اور غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں اس کا نشانہ گیشکور سے تعلق رکھنے والی بی بی نجمہ ولد دلسرد بنی جب فورسز سے تعلق رکھنے والے مقامی ایک شخص نے شہید نجمہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ فورسز کیلئے کام کریں، منع کرنے پر اس کے والد کو بھی کیمپ طلب کیا گیا جبکہ بعدازاں انہیں بھی کیمپ طلب کیا گیا لیکن مسلسل انکار کے بعد انہیں ذہنی طور پر ٹارچر کرنا شروع کیا گیا، آئے دن اُسے فورسز کے اہلکاروں اور مقامی ریاستی اہلکاروں سے تنگ کیا جاتا، فون کرکے دھمکیاں دی جاتی، ان سب حالات ست تنگ آکر انہوں نے گھر میں یہ کہنا شروع کیا تھا کہ میں ایسی اذیت برداشت نہیں کر سکتا اگر یہ تنگ کرنے کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو میں خودکشی کر لوں گی، یہ سلسلہ گزشتہ تین چار مہینوں سے جاری تھا۔ فورسز چونکہ کسی کے جوابدہ نہیں اور خاص کر بلوچستان کے دیہاتی علاقوں میں وہ ہر قانون سے بالاتر ہیں اس لیے خاندان مجبوری سے انہیں برداشت کرتے رہے۔ اس ذلت سے دلبرداشتہ ہوکر نجمہ نے آخر میں اپنی زندگی ختم کر دی لیکن انہوں نے فورسز کے ظلم اور ناانصافیوں کی ایک اور داستان اپنے خون سے رنگ دی۔ نجمہ ان شہیدوں میں ہے جنہیں ریاستی فورسز نے بندوق نہیں بلکہ ذہنی ٹارچر اور سنگین اذیت سے شہید کیا ہے۔ بلوچستان میں حالیہ دنوں بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات میں ایک اہم فیکٹر ریاستی اہلکاروں کی جانب سے انہیں تنگ اور ذہنی اذیت سے گزارنا بھی شامل ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ فورسز کے ان سنگین جرائم اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنی ماؤں اور بہنوں کی آواز بنیں جنہیں آج مختلف ظلم اور زیادتیوں کا سامنا ہے۔ ایک عوامی طاقت و قوت ہی ان جرائم کی روک تھام کر سکتی ہے جبکہ خاموشی میں ہر طرح بربریت اور وحشت کا سامنا ہوگا۔