پاکستان بلوچوں کا خون بہا کر بلوچستان کی دولت لوٹ رہا ہے -ڈاکٹر نسیم بلوچ



بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کے قبضے اور استحصال سے نکل کر آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار ٹوئٹر اسپیس پر انڈیا نریٹیو کے صحافی راول کمار کے ساتھ بات چیت میں کیا۔


ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا  کہ پاکستان "سونے اور خون کی پالیسی" پر عمل پیرا ہے، یعنی وہ بلوچوں کا خون بہا کر بلوچستان کی دولت لوٹ رہا ہے۔


انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ عوام اپنی دولت میں سے حصہ نہیں مانگ رہے بلکہ اپنی زمین مانگ رہے ہیں جہاں وہ آزاد اور خودمختار قوم کے طور پر رہ سکیں جو کہ تاریخی حقائق اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر ان کا مقصد اور حق ہے۔


انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ جدوجہد جامع اور منظم ہے جس میں سیاسی مزاحمت اور بیرون وطن جلاوطن سیاسی کارکنان کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے بلوچ بلوچستان چھوڑ کر مختلف ممالک میں آباد ہو گئے ہیں جہاں وہ تحریک آزادی کا حصہ ہیں۔


ڈاکٹر  نے پر اعتماد لہجے میں کہا  بلوچستان آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے، حالانکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔


انھوں نے کہا کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے جسے وسیع پیمانے پر  بلوچ قوم کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ قوم غلامی اور استعمار کو مزید برداشت نہیں کر سکتی۔


بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے عالمی اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مداخلت کرکے پاکستان اور چین کو بلوچستان کے استحصال اور جبر سے باز رکھیں۔انھوں نے کہا کہ بلوچستان کی آزادی سے بلوچ عوام میں خوشحالی اور امن آئے گا اور پورے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔


انھوں نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر منصوبہ ہے جو چین کے سنکیانگ کے علاقے کو بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے جوڑتا ہے یہ منصوبہ بلوچستان میں لوٹ مار، نقل مکانی اور تنازعات کا باعث ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ عوام چین پاکستان اتحاد کے خلاف اپنی آزادی اور وقار کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا موازنہ انھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی سے قبل ہونے والی نسل کشی سے کیا۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان آزادی کی طرف گامزن ہے اور اس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔


چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اس مباحثے میں بلوچ آزادی کی جدوجہد سے متعلق سوالات کے جوابات بھی دیے۔ 


انھوں نے آزادی کی حامی جماعتوں کی بلوچستان میں فعالیت کی حکمت عملی، بلوچ اور پشتون تحریکوں کے درمیان تعلقات اور تنازعات میں وسائل کے کردار کے بارے میں بات کی۔


انھوں نے کہا کہ پاکستان کی "مارو اور پھینک دو" کی پالیسی کی وجہ سے بی این ایم اور دیگر جماعتوں کو بلوچستان میں زیر زمین کام کرنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے کہا آزادی کی تحریک میں لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے سیل سسٹم قائم کیا گیا ہے۔


انھوں نے کہا کہ بلوچ تحریک وسائل کی نہیں بلکہ  بلوچستان کی آزادی  کی  تحریک ہے۔


 چیئرمین بی این ایم  نے کہا کہ بلوچ عوام پاکستان کے قبضے اور استحصال سے بچنا چاہتے ہیں۔بلوچ تحریک پاکستان سے  قبل اور بلوچستان میں وسائل کی دریافت سے پہلے بھی موجود تھی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post