بی ایس او آزاد کا تیسواں سیشن گذ شتہ دن سے جاری



تئیسویں مرکزی کونسل سیشن کے دوسرے روز کا احوال

یونی پولر ورلڈ آرڈر پولی سینٹرک ورلڈ آرڈر میں تبدیل ہو رہی ہے، بلوچ قومی تحریک کو مخصوص ممالک و خطوں کے بجائےسفارتکاری کے عمل کو دنیا بھر میں پھیلانا چاہیے۔یہ بات 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کونسل سیشن کے دوسرے روز کے اجلاس بعد  میڈیا میں جاری بیان میں کہی ہے ۔


انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی کونسل سیشن بیاد لمہ وطن بانک کریمہ بلوچ و شہدائے آجوئی و بنام بلوچ اسیران منعقدکیا گیا ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ بی ایس او آزاد کے تئیسویں مرکزی کونسل سیشن میں 8 ایجنڈے زیر بحث ہیں، جس میں مرکزی چیئرمین کا خطاب، آئین سازی،سیکرٹری رپورٹ، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، آئندہ لائحہ عمل و الیکشن اور چیئرمین کا آخری خطاب کے ایجنڈے شامل ہیں۔


ترجمان نے کہاہے کہ گزشتہ روز  17 اپریل بروز پیر کو دیوان کا پہلا اجلاس چیئرمین کا خطاب، آئین سازی، سیکرٹری رپورٹ اور تنقیدی نشست کے ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث کے بعد اختتام پذیر ہوا جبکہ آج 18 اپریل بروز منگل کونسل سیشن کے دوسرے روز تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈوں پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوا جس میں تنظیمی کونسلران نے بھرپور شرکت کرتے ہوئے تنظیمی پروگرام کے حوالے سے اپنے تجاوزات پیش کیں۔


آج کے اجلاس کی کارروائیوں کا آغاز ہمیشہ کی طرح بلوچ شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی کے ساتھ ہوا جس کے بعد اجلاس کا پانچواں ایجنڈا تنظیمی امور جو دو حصوں پر مشتمل تھا شروع ہوا۔ پہلے حصے میں کونسلران نے اپنے مکالمے پیش کیے جو انہوں نے تنظیمی امور کیلئے سیکرٹری جنرل کی ہدایت پر تیار کی تھیں جبکہ دوسرے حصے میں تنظیمی امور میں پیش کیے گئے تمام تجویزات پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوا۔


اجلاس کا چھٹا ایجنڈا عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال تھا جس میں مختلف کونسلران نے ایجنڈے پر اپنے تیار کیے ہوئے پیپرزپڑھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سیاست روز بروز تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور اس سلسلے میں روس یوکرین جنگ کے بعد عالمی سیاسی منظر نامہ آنے والے کچھ وقتوں میں مکمل طور پر بدلتا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ ایک صدی کے واقعات ہمارے لیے اس تجربہ کیلئے کافی ہیں کہ عالمی سیاست میں کوئی بھی اصول، موقف اور مفادات دائمی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ وہی امریکہ جنہوں نے تیس سال پہلے طالبان سمیت دنیا بھر میں بلخصوص وسطی ایشیا میں سویت یونین کے خلاف اسلامی تنظیموں کو منظم کیا، انہیں جدید اسلحے سے لیس کرتے ہوئے ان کی بھرپور مالی و سیاسی مدد کی بعدازاں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا جنگ بھی انہی کے خلاف لڑ کر واپس چلا گیا۔ 


اسی طرح کا ایک معاہدہ ہمیں اُس وقت کے سویت یونین اور نیٹو یعنی امریکہ کے درمیان دیکھنے کو ملا جب انہوں نے جرمنی کے اشتراک پر فیصلہ کیا جہاں امریکی صدر نے سویت یونین یعنی روسی فیڈریشن کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ نیٹو کو مشرقی یورپ میں نہیں پھیلائے گا لیکن سویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے فوری طور پر نیٹو کو پورے یورپ میں پھیلا دیا بلکہ بالٹک نیشنز سمیت یوکرین جو روس کے ساتھ طویل سرحد شئیر کرتا ہے انہیں بھی ممبرشپ دینے کی حامی بھری جس کی وجہ سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے جو عالمی سیاسی منظرنامے میں یکسر تبدیلیوں کا موجب بن رہا ہے۔ 


اسی طرح کی مثال ہمیں سعودی عرب کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے، جب عراق نے کویت پر حملہ کرکے دو دن میں اس پر اپنا قبضہ جمایا تو اپنے اوپر حملے کے ڈر سے سعودی نے امریکہ کو سعودی عرب میں "سیکورٹی گارنٹی" کی پالیسی کے تحت مختلف فوجی اڈے دیے تھے مگر موجودہ حالات کے تقاضوں کو پنپتے ہوئے انہوں نے بھی اپنے ہواؤں کا رخ تبدیل کرکے چین، روس حتی کہ ایران جیسے امریکی دشمن ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو نارملایزیشن کی طرف لا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سیاسی منظرنامے میں کوئی بھی سمجھوتہ آخری نہیں۔


انہوں نے کہا ہے کہ یہ حالات صرف وسطی ایشیا کے نہیں جہاں امریکہ اور یورپ مخالف سوچ پھیل رہی ہے بلکہ ساؤتھ ایشیا سمیت سینٹرل ایشیا اور افریکہ جیسے خطوں میں بھی مغرب سینٹرک ورلڈ آرڈر کے خلاف آوازیں آ رہی ہیں، یوکرین اور روس تنازعے کے بعد یورپی ممالک کو چھوڑ کر بیشتر ممالک نے مغرب کا اتحادی بننے سے انکار کر دیا ہے، بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ کو اس سوچ سے اب نکلنا ہوگا کہ "دنیا کے مسئلے ہمارے مسئلے نہیں اور ہمارے مسئلے دنیا کے مسئلے ہیں" 


یہی صورتحال وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک کی جانب سے بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں امریکہ کے فوجی اڈے موجود ہیں جبکہ عرب ممالک کی جانب سے حالیہ دنوں عراق میں ایران اور روس نواز حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات اور افریکی ممالک کی جانب سے چین کی طرف جکاؤ نے عالمی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کر دیا ہے۔ عرب ممالک اور وسطی ایشیا میں سعودی عرب جیسے مسلم ممالک کی جانب سے جس طرح انفراسٹرکچر، سیاحت، کھیل اور انسانی حقوق کو اہمیت دی جا رہی ہے یہ آنے والے وقت میں یورپ سے انحصار کے خاتمے کاسبب بن سکتے ہیں جس کی مثال خطر جیسے مسلم ممالک میں فیفا ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کا ہونا ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ  اس حقیقت کو رد کرنا خام خیالی ہے کہ دنیا بھر سے امریکہ اور یورپ کے انحصار کا اتنی جلدی خاتمہ بس کچھ وقت میں ممکن ہے لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ دنوں میں جو تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں ان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف خطوں میں موجود طاقتیں امریکہ اور یورپ سے اپنا انحصار ختم کرکے خود اپنے معاملات میں آزاد اور طاقت ور ہونا چاہتے ہیں۔ روسی اور بھارتی وزیر خارجہ کے درمیان ہونے والے ایک ملاقات میں دنیا کو یونی پولر ورلڈ آرڈر کے بدلے Polycentric World Order کی طرف گامزن ہونے کیلئے کہا گیا، جس کا مطلب ہر خطے کا اپنا ایک الگ طاقت اور سینٹر ہوگا جہاں پوری دنیا میں طاقت کا پلڑا صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ہر خطے میں الگ ایک سینٹرل طاقت اور فیصلہ سازی کا مرکز ہوگا۔ یعنی امریکہ اور یورپ پر انحصار کے بدلے افریقہ، ساوتھ ایشیا، وسطی ایشیا سمیت ہر خطہ اپنا ایک مرکزی طاقت قائم کرنا چاہتا ہے جہاں وہ اپنے علاقائی مسائل و مسئلے حل کریں کیونکہ مغرب سینٹرک ورلڈ آرڈر دنیا بھر میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام بلکہ باز خطوں میں جنگ اور بڑے مسائل کی بنیاد بن چکی ہے۔


کونسلران نے عالمی سیاسی منظر میں تبدیلی کے پیش نظر بلوچ سفارتکاری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قومی آزادی کی جدوجہد کیلئے سفارتکاری کا عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تہتر کی مزاحمت کے وقت بلوچ سفارتکاری کا مرکز یورپ نہیں بلکہ وسطی ایشیا ہوا کرتا تھا اور عراق جیسے ملکوں میں بلوچ سیاسی کارکنان رہ کر اخبارات سمیت دیگر سیاسی سرگرمیاں انجام دیتے تھے، جبکہ اس وقت کے عالمی سیاسی تقاضوں کے مطابق بلوچوں کے اندر امریکہ اور یورپ مخالف ذہنیت موجود تھا۔


 لیکن 2000 میں اٹھنے والی بلوچ قومی تحریک کے بعد دنیا میں حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے تھے اور یورپ انسانیت و انسانی حقوق کا رکھوالابن چکا تھا جس کی وجہ سے بلوچ سیاسی کارکنان نے یورپ جاکر تحریکی سرگرمیاں انجام دینا شروع کی لیکن اب عالمی سیاسی منظر نامے میں پھر سے حالات تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں اس لیے ان حالات میں بلوچ قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ سفارتکاری کو یورپ سینٹرلائزڈ کرنے کے بجائے اسے دنیا بھر میں پھیلانے کی جدوجہد کریں تاکہ آنے والے وقتوں میں کسی بھی بڑی تبدیلی کی صورت میں بلوچ قومی تحریک بڑے نقصانات کے بجائے حالات سے فائدہ اٹھا سکیں اور تحریک کی مضبوطی و کامیابی کا سبب بنیں۔


دوسری جانب کونسلران نے علاقائی سیاسی صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قابض پاکستان کی جانب سے جہاں آئے روز بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی، سی ٹی ڈی کے ہاتھوں فیک انکاؤنٹرز، مسخ شدہ لاشیں پھینکے کا عمل جاری ہے، وہیں اب خواتین کو بھی روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جو بلوچ سماج کے اندر خوف پیدا کرنے کی ایک اور ناکام کوشش ہے جبکہ ان کے ساتھ ساتھ کمیشن کلچر کو پروان چڑھانا، ریاستی پالیسی کے تحت مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینا اور پرائیوٹ اسکولوں کو ایک مخصوص سازش کے تحت تحریک کے خلاف استعمال کرنا، مختلف این جی اوز کو بلوچستان بھر میں ایکٹیو کرنا، مخالفت کے باوجود غیر ملکی اور استحصالی سرمایہ کاری کو بلوچستان میں لانا، سافٹ پاور کے ذریعے عوام کو تحریک سے بدظن کرنے کی کوشش کرنا اور تحریک کے حوالے سے نام نہاد جماعتوں کے ذریعے عوام کے اندر مایوسی پھیلانے کی کوششوں سمیت غیر انقلابی اور ردانقلابی قوتوں کیلئے گراؤنڈ میں اسپیس چھوڑنا، ان تمام کوششوں کا بنیادی مقصد بلوچستان میں اپنے قبضے کو مزید دائم بخشنے کی ناکام کوشش ہے۔ ریاستی ان پالیسیوں کا مقابلہ کرنا اس وقت قومی تحریک کے اہم ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔


چھٹے ایجنڈے کے اختتام کے بعد سیکرٹری جنرل کی جانب سے آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں تنظیمی کونسلران کی جانب سے آنےوالے دو سالہ پروگرام کیلئے دیے گئے تجاوزات دیوان کے اندر پیش کئے گئے جن پر کونسلران کے درمیان تفصیلی بحث و مباحثے کے بعدقومی تحریک اور بی ایس او آزاد کو مزید منظم و متحرک کرنے کیلئے کونسلران کی اکثریتی رائے کے ساتھ کئی اہم اور ضروری فیصلے لیے گئے۔ جبکہ حالات کی نزاکت اور وقت کی کمی کو دیکھ کر اجلاس کے اختتامی ایجنڈے الیکشن، چیئرمین کا آخری خطاب اور حلف برداری دیوان کی کارروائیاں کل سرانجام دی جائیں گی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post