بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5028 دن ہوگئے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں تفتان سے تاجربرادری کے نصیب اللہ بلوچ، عرفان بلوچ اور دیگر نے کیمپ اکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ انسانی تقریخ اس امر کی گواہ ہے، کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ظلم و جبر کے خلاف اٹھی آواز کو قتل غارت ظلم جبر سے دبایا نہیں جا سکا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیشہ قابض ظالم پرامن جہدکاروں کے خلاف تشدد جبر کے ساتھ انھیں غلام رکھنے کے لئے تمام ترحربے اور وسائل کا استعمال کیا ہے عین یہی صورت حال روز اول سے بلوچ کے ساتھ بھی چلا آرہا ہے ، 1948 کو پاکستان نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جبری قبضہ کے بعد سے آج تک اس غلامی کو تقویت دینے کے لئے فوجی آپریشنوں بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دشمن بھی نت نئی حربوں کے ساتھ بلوچ جہد کے خلاف سرگرم عمل ہے بلوچ سیاسی ورکرون ڈاکٹروں نیز ہر مکتب فکر کے لوگوں کا قتل عام ٹارگٹ کلنگ کے بعد ریاست نے بلوچ خواتین کی آواز کو دبانے کے لئے پرانے شوشہ حربوں کو نئے انداز میں پیش کر رہاہے ۔ جسکی واضع مثال ریاستی خفہ اداروں سی ٹی ڈی کا گھرون پر چھاپہ مارنے کی دھمکی دینا اور خواتین کو جھوٹے کیسوں میں پھنسانے کیلے حربے استعمال کرنا ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ بیٹی نے جب غلامی کے خلاف اپنی قلم کو بطور ہتھیار استعمال کرکے حق اور سچائی کے لئے آواز بلند کی تو انھیں پابند سلاسل کیا تو پھر وہی پرانا طریقہ تشدد جبر دھمکیوں کا ریاست نے سہارا لیکر بلوچ فرزندوں کی طرح بلوچ بیٹی کو بھی جھوٹے کیس میں پھنسا دیاگیا مگر اس کے باوجود وہ ثابت قدم رہی ۔