شال : بلوچ تحریک آزادی کے رہنماء استاد واحد کمبر نے 27 مارچ یوم سیاہ کے حوالے سے جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ گذشتہ 75 سال کے طویل عرصے میں کسی بھی سال ، کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحے اپنے ملک کی آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنی آزادی کے لیے دشمن کے خلاف لڑتے رہے، پاکستان کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کے قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ کی جنگ آزادی ’تمام مظلوم و محکوم‘ پر مثبت اثرات مرتب کرے گی یہ نا صرف بلوچ کی جنگ ہے بلکہ یہ جنگ پاکستانی بندوبست کے اندر تمام محکوم اور مظلوموں کی آزادی کی جنگ ہے لہذا تمام اقوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ آج 27 مارچ کو اس قبضے کے خلاف بلوچ قوم کا ساتھ دے کر اسے یوم سیاہ کے طور پر منائیں۔
واحد کمبر نے کہاہے کہ اقوام متحدہ اور دولت مشترکہ کا فرض بنتا ہے کہ بلوچستان کی آزادی کی بحالی کے لیے انسانی بنیادوں پر مدد کریں اور دنیا کے تمام ترقی پسند اور آزادی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان کی آزادی کی بحالی میں بلوچ قوم کی مدد کریں۔‘‘
انھوں نے تاریخی واقعات کے پس منظر میں کہا ہے کہ 27 مارچ 1948 بلوچ قوم کے لیے ایک سیاہ ترین دن ہے کیونکہ اسی دن افواج پاکستان نے توپ اور بندوقوں کے ذریعے بلوچستان پر قبضہ کیا۔خان بلوچ کو گرفتار کرکے کراچی جیل میں پابند سلاسل کیا گیا۔اس قبضے کو 75 سال گزر چکے ہیں لیکن بلوچ قوم نے آج تک ایک بھی لمحے کے لیے اس قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔اس کالونائیزیشن کے خلاف بلوچ سن 1948 سے لے کر آج (27 مارچ 2023) تک بھرپور انداز میں مزاحمت کر رہی ہے۔لیکن اقوام متحدہ ، عالمی اور علاقائی طاقتیں اس ناجائز قبضے کو اندرونی تضادات کی نکتہ نظر سے دیکھ کر خاموش ہیں۔حالانکہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی جس کا پایہ تخت کلات تھا۔تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان بننے کے 9 ماہ بعد بلوچستان پر قبضہ کرکے بلوچ قوم کی آزادی سلب کی گئی جو ایک عالمی اور انسانی مسئلہ ہے۔
انھوں نے بیان میں لکھا ہے کہ کسی بھی طاقتور ملک کا دوسرے کمزور ملک پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔قبضے کے خلاف بلوچوں نے روز اول سے مزاحمت شروع کی۔ مکران کے گورنر آغا عبدالکریم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ آزادی کا علم بلند کیا۔اور سرلٹ میں بلوچ جنگ آزادی کے سرمچاروں نے ان کی قیادت میں ڈیرے ڈالے۔ان کے بعد بابونوروزخان نے پاکستان کے صدر ایوب خان کے دور میں بلوچ جنگ آزادی کی قیادت کی ، جنھیں قرآن درمیان میں لاکر مذاکرات کے بہانے دھوکے سے گرفتار کرکے بچوں سمیت حیدرآباد جیل میں قید کیا گیا، ان کے بچوں کو پھانسی دی گئی اور آپ جیل میں وفات پاگئے۔1970 میں بلوچوں کی مزاحمت میں شدت پیدا ہوگئی۔بلوچ قوم نے پاکستانی افواج کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ بلوچوں کے مزاحمتی اخبار جبل کے مطابق اس مزاحمت میں پاکستانی افواج کے 1200 فوجی مارے گئے اور نامعلوم تعداد میں زخمی ہوئے اور بلوچوں کو کافی مالی اور جانی نقصانات اٹھانے پڑے۔یہ جنگ چار سال تک جاری رہی۔
انھوں نے کہا ہے کہ بلوچوں نے پاکستان کے جبر اور پاکستان کو ملنے والی عالمی اور علاقائی طاقتوں کی مدد کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی آئندہ بلوچ قوم اپنی آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہوگی۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان پر قابض قوت اپنے قبضے کو جتنا طول دے گی اتنا ہی خطے کی معشیت اور سماجی ترقی کو نقصان ہوگا۔ یہ خطہ اور دنیا کے مفاد میں ہے کہ پاکستان اپنی 75 سالہ غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے افواج بلوچستان سے نکال کر پرامن بقائے باہمی کے تحت ایک نئے عہد کی شروعات کرئے اور بلوچستان کے ساتھ اچھا ہمسایہ بن کر رہے۔
استاد نے کہا ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں بلوچوں نے بے انتہاء قربانیاں دی ہیں۔ پاکستانی افواج بلوچ مرد و زن ، پیر و ورنا اور کودک و جوان میں تفریق کیے بغیر بلوچستان میں قتل و غارت کر رہی ہیں تاکہ بلوچستان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھ سکیں۔لیکن بلوچ ایک منظم جنگ لڑ رہے ہیں جو دشمن کے مفادات کے خلاف اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ بلوچستان پر قابض ہے، بلوچ فرزند دشمن کو آزادی کے حصول تک ایک بھی لمحہ چین سے رہنے نہیں دیں گے۔