وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو 4989 دن مکمل



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لگائے گئے وی بی ایم پی کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4989 دن ہوگئے .


اظہار یکجہتی کرنے والوں میں  بی این پی کے کارکن دستگیر بلوچ ، محمد خان بلوچ سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی. 


احتجاجی کیمپ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز  وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور اعزازی کو آرڈینیٹر حوران بلوچ کے ساتھ 16 مارچ کو خاران سے جبری لاپتہ شاہ فہد کے لواحقین بھی بیٹھے رہے.


شاہ فہد کی بہن کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو بازیاب کرنے کی بجائے فورسز انہیں مسلسل تنگ اور حراساں کر رہے ہیں، انہوں نے کہا انہیں انصاف فراہم کیا جائے - 


 اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کا وحشیابہ قتل ریاستی اداروں اور انکی گماشتوں کی وحشت بربریت کی بدتریں مثال اور انکی شیطانی زہنیت کی عکاسی کرتی ہے اور بلوچ نسل کشی پر عمل پیرا ریاستی ادورں اور انکے گماشتوں نے مسخ شدہ لاشوں کو اغواہ گمشدگی کے بعد اب ریاستی اداروں نے بلوچ سْیاسی رہنماؤں، اساتذہ اور وکلا کو بھی برائے راست ٹارگٹ کرکے شہید کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ 


ماما قدیر نے کہا کہ انکے قتل کا طریقہ واردات دراصل قتل کے محرکات کو چھپانے اور اپنے آپ کو اس گھناؤنے فعل سے بری ازمہ قرار  دینے کی ایک ناکام کو شش ہے ۔ مگر لاکھ کوشش کے باوجود ظلم چھپائے نہیں چھپتا ، ریاست کا ہر ایک ادارہ بلوچ نسل کشی کو ایک دورسرے کےسر تھونپ کر اپنے آپ کو بھری ازمہ قرار دینے کی کوشش کررہی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس فعل میں کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ پورے کا پورا ریاستی ڈھانچہ ملوث ہے ۔


 انھوں نے کہاکہ دوسری جانب پاکستانی پولیس سی ٹی ڈی عدلیہ اور پالمنٹ کے اعتراف کے باوجود بھی اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی جنیوا کنوینشن کی صریحا خلاف ورزی اور انکے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے سمجھ سے بلاتر ہے کہ بلوچ نسل کشی میں ریاست کے ملوث ہونے کا ذکر نہ صرف اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے تواتر  سے کرتے رہتے ہیں بلکہ پاکستانی عدلیہ پارلمنٹ سمیت دیگر کہی ادارے اسکا برملا اعتراف کر چکے ہیں ۔


 انھوں نے کہاکہ ان سب کے باجود اقوام متحدہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی اس شک کو تقویت پہنچھا تا ہے کہ وہ بلوچوں کو انسان نہیں سمجھتے یا وہ ریاستی ادارون کے سامنے بلیک میل ہیں ۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ انسان اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی جیسے انسانی بہران سے بچھنا چاہتے ہیں تو وہ فوری مداخلت کرکے بلوچوں کی نسل کشی انسانی حقوق کی خلوف ورزیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post