شال: بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کی رپورٹ کے مطابق فروری 2023 میں بلوچستان سے 39 افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا جبکہ ایک شخص کو پاکستانی فوج نے تشدد کرکے قتل کردیا۔
جبری گمشدگی کے شکار ہونے والوں میں دو خواتین ماھل بلوچ اور رشیدہ زھری بھی شامل تھیں جن میں سے رشیدہ زھری رہا کیے جاچکے ہیں جبکہ ماھل بلوچ جھوٹے الزامات کے تحت پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنت کی تحویل میں ہیں۔
فوجی اہلکاروں کے تشدد سے ہلاک ہونے والے شخص داد بخش ولد مسکان کو پاکستانی فوج نے آرمی کیمپ میں بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوگئے۔جو کہ گیشکور ضلع آواران کے رہائشی تھے۔
فروری میں 13 جبری گمشدگان کو دوران حراست جسمانی اور ذہنی تشدد دینے کے بعد رہا کیا گیا۔
پانک کی رپورٹ کے سرورق پر پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کی شکار خواتین ماھل بلوچ اور رشیدہ زھری کی تصاویر کے علاوہ امیراں بی بی کی تصویر بھی دی گئی ہے۔جنھیں مبینہ طور پر پاکستانی حکومت کے وزیر عبدالرحمان کیتھران نے قتل کرکے لاش پر تیزاب پھینک کر ان کا چہرہ مسخ کیا تھا۔ امیراں بی بی کے ساتھ قتل ہونے والے دیگر پانچ افراد کی لاشیں ملنے کے بعد بلوچستان بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا جس پر عبدالرحمن کیتھران کو گرفتار کیا گیا۔
پانک کی طرف سے رپورٹ کے ساتھ جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ فروری میں پاکستان نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں شدت پیدا کرکے بلوچ خواتین کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ جبری گمشدگی کی شکار ہونے والی ماھل بلوچ کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے اور ان پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے نہتے لوگوں کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کرنے کا عمل جاری ہے ، انھیں کس قانون کے تحت گرفتاری اور جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے اس پر حکومت پاکستان اور صاحب اختیار خاموش ہیں۔نہتے شہریوں کو جبری لاپتہ کرنا اور بغیر عدالتی کارروائی کے انھیں تشدد کا نشانہ بنانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
پانک کے مطابق بلوچستان میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے جس کی بلوچ تنظمیں نشاندہی کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی شنوئی نہیں ہو رہی جس کے باعث پاکستانی فوج مزید دیدہ دلیری سے نہتے بلوچوں کے حقوق روند رہی ہے۔اگر عالمی ادارے اور انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں پاکستان کو جوابدہ نہیں ٹھہراتیں تو بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بدترین شکل اختیار کرئے گی۔
پانک نے درخواست کی ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی کے جرائم کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت دیگر ادارے عملی اقدامات اٹھائیں۔