بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سانحہ بارکھان اور بلوچ بیٹی ماحل بلوچ کی بازیابی کیلے مظاہرے

 


اوستہ محمد: سانحہ بارکھان کے خلاف ریلی نکالی گئی ریلی میں مختلف مکاتب فکر کے افراد سمیت سیاسی سماجی کارکنوں بی این پی مینگل،نیشنل پارٹی،جمعیت علما اسلام،پیپلز پارٹی،کے  کارکن شریک ہوئے ریلی۔ 

 رند ہاس سے نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی پریس کلب پہنچی جہاں مقررین نے سانحہ بارکھان کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت سوز واقع قرار دیا ۔


ریلی سےمقررین نے  خطاب نے کہا کہ ایک نام نہاد سردار نے بلوچوں کی شاندار روایات کو اپنے تکبر تلے کچل دیا ہے بے گناہ افراد کا بہیمانہ قتل اور نجی جیل میں قید خواتین اور بچوں پر انسانیت سوز تشدد انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔


انہوں نے مطالبہ کیا کہ مبینہ طور پر جرم میں ملوث نام نہاد سردار کھیتران کے خلاف فوری کاروائی کی جائے انہیں بلوچستان کابینہ سے بر طرف کر کے گرفتار کیا جائے تاہم انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مبینہ ملزم کو تحفظ دیا جا رہا ہے ایف آئی آر میں ملزم کی بجائے نا معلوم کا اندراج مقتولین کو انصاف کا راستہ روکنے کے مترادف ہے ۔


انہوں نے کہا کہ نام نہاد سرداروں کے ظلم و جبر کا شکار بے بس اور مظلوم افراد کو تحفظ دینے کے لئے سماجی اور سیاسی کارکنوں کا ایک پیج پر اکھٹا ہونا خوش آئیند ہے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم تنظیموں کو غیر انسانی رویوں کی روک تھام کے لئے یکجا ہو کر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ۔



 ا س طرح بارکھان واقعے کیخلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ احتجاجی ریلیاں نیشنل پارٹی، بی ایس او بچار اور سول سوسائٹی کی جانب سے نکالی گئیں۔ نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار دالبندین کے زیراہتمام سانحہ بارکھان کے خلاف پریس کلب دالبندین کے سامنے احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ اس دوران شرکاءنے  بلوچستان کے نام نہاد وزیر عبدالرحمان کھیتران کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔


 مظاہرین نے  وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں خان محمد مری کے بچوں کی بہیمانہ قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔


 مقررین نے کہا کہ سرکار کی آشیرباد سے معصوم اور نہتے لوگوں کو قتل کرنا کھلم کھلا سفاکیت ہے کسی بھی معاشرے میں خواتین یا معصوم و نہتے لوگوں کو بے جا قتل کرنا اسلامی و بلوچی روایات کے خلاف ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نام نہاد سردار کے سامنے بے بس ہے حکومت سے خیر کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ 


انہوں نے کہا کہ حکمران اور ان کے کاسہ لیس بلوچ نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں سردار عبدالرحمان کھیتران جیسے سفاک قاتل نے قرآن پاک کا واسطہ بھی نہیں چھوڑا سرکار کی گود میں پلنے والے سرکاری سرداروں کی نجی جیلیں بارکھان کے علاوہ بلوچستان  کے دیگر علاقوں میں بھی قائم ہیں ، جہاں پر حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی ۔

حکومت نے اپنے گماشتوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے بلوچ سیاسی کارکنوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ 


انہوں نے کہا کہ بلوچ سیاسی رہنماوں کو بےجا لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں لیکن  عبدالرحمان کھیتران جیسے سفاک قاتل کو سرکاری مہمان بناکر رکھا جاتا ہے۔


 انہوں نے بارکھان واقعے کی فی الفور تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اصل ملزمان کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ بصورت دیگر شدیداحتجاج سے گریز نہیں کریں گے۔


  نوشکی میں بھی  نیشنل پارٹی، بی ایس او پجار کے زیر اہتمام سانحہ بارکھان کے خلاف ایک احتجاجی ریلی پارٹی آفس سے نکل کر مختلف شاہراں سے ہوتے ہوئے گل خان نصیر چوک پر احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کرگئی ۔


 احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے  کہا کہ سانحہ بارکھان بلوچی روایات اور اسلامی اقتدار کی منافی ہے۔  کیونکہ ایک ظالم جبر سردار جس نے اپنی نجی جیلیں بنا کر ظلم کی انتہا کردی ہے ،کئی سال سے اس نے خان محمد مری سمیت کئی ایسے خاندان ہے کہ وہ اس نام نہاد سردار کی نجی جیلوں میں قید اور تشدد کی زندگی گزار رہے ہیں۔


انھوں نے کہاکہ مزکورہ قاتل سردار کو حکومت بلوچستان اور نام نہاد سرکاری سرداروں کی بھر پور حمایت حاصل ہے ، لوگ سراپا احتجاج ہیں ، لیکن ڈمی بلوچستان  حکومت بجائے متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے وہ اپنے چیلے سردار کو مختلف حوالے سے تحفظ فراہم کررہی ہے، اس ظلم اور جبر کے خلاف نام نہاد سرداروں نے چھپ کی سادلی ہے،  کچھ سیاسی ایکٹر صرف لفاظی الفاظوں تک محدود ہوچکے ہیں ۔ وہ اس ظلم کی بربریت کی خلاف بات اور نام  لینے سے  کتراتے ہیں ۔  وہ بھی اس ظلم جبر میں برابر کے حصہ دار ہیں ۔ 


 خاران میں سول سوسائٹی کے زیر اہتمام سانحہ بارکھان کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی ریلی مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب خاران کے سامنے اختتام پذیر ہوا احتجاجی ریلی سے سول سوسائٹی اور مختلف پارٹیز کے نمائندوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ معاشرے میں اس طرح کا واقعہ پیش ہونا افسوس ناک عمل ہے جس کی بھی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مقررین نے کہا کہ اس طرح کے ظلم کے خلاف ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ کہ قاتل اپنے انجام کو پہنچ سکیں ۔



انہوں نے کہا کہ اسلام میں قرآن کے بعد عورت کا اہم مقام حاصل ہے جبکہ بلوچی اور قبائلی معاشرے میں قرآن کی احترام کے بعد عورت کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن بارکھان میں بدقسمتی سے عورت سمیت دیگر افراد کو بے دردی سے قتل کرکے ہم سب کو شرم سے جھک جانا چاہیے اور ایسے ظالم کے خلاف ہم آواز ہو کر اپنا کردار ادا کریں اور حکومت وقت کو چاہیے کہ ایسے ظالم اور جابر بندے کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرکے ان کو کیفرکردار تک پہنچائیں تاکہ مقتول کے لواحقین کو انصاف مل سکیں۔


 سانحہ بارکھان کیخلاف پنجگور میں بھی نیشنل پارٹی سول سوسائٹی، بی ایس او پجار کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی احتجاجی ریلی نیشنل پارٹی کے ضلعی دفتر سے نکل کر مختلف شاہراہوں اہم مارکیٹوں سے گذرتے ہوئے نیشنل پریس کلب کے سامنے جمع ہوکر جلسے کی شکل اختیار کرلی احتجاجی مظاہرین نے سانحہ بارکھان کے قاتلوں کی گرفتاری و لواحقین کو انصاف کے حق میں ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھائے ہوئے تھے۔


 احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ سانحہ بارکھان ایک خواتیں کو بچوں سمیت قتل کرنا انہیں مسخ کرکے کنویں میں پھینک دینا نہ بلوچیت ہے نہیں  انسانیت اسکی اجازت دیتی ہے نہی کوئی بھی ذی شعور معاشرہ اس کو قبول کرتی ہے۔


 مقررین نے کہاکہ  ایک طرف سرکاری سرداروں کے ذریعے بلوچ قومی غیرت کو تار تار کیا جارہا ہے دوسری جانب بلوچ چادر و چار دیواری کی تقدس کو پائمال کرتے ہوئے بلوچ خواتین پر مختلف الزامات لگا کر گھروں سے معصوم بچوں کے سامنے آٹھا کر لاپتہ کیا جاتاہے،  ماحل بلوچ کسی بھی مخالف کا حصہ نہیں انہیں رہا کیا جائے ۔


انہوں نے کہا ہے کہ ایک خاتون سوشل میڈیا پر آکر اپنے اور اپنے معصوم بچوں کی بازیابی انکی جان کی تحفظ کی بھیک مانگتی ہے اور ہمارے بے حس ادارے بے حس قوم واقع کا انتظار کرتی ہے کہ کب واقع ہو اور ہم سوشل میڈیا کے شیر بن کر مظاہرہ کریں گے ۔


انھوں نے کہاکہ  وقت شوشہ کا نہیں ہے بلوچ قوم کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اب ہمارے عزت محفوظ نہیں ہیں، جہاں جس نے بھی ہمارے غیرت پر ہاتھ ڈالا ہمیں گھروں سے نکلنا ہوگا ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا آج بارکھان کل ہم ہونگے۔


 انہوں نے کہا ہے کہ سانحہ بارکھان پر اداروں کی خاموشی آئینی حیثیت کو سبوتاژ کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں افراتفری کا نظام چل رہا ہے آج اگر ادارے آئین قانون کے تابع ہوتے تو سانحہ بارکھان پیش نہ آتا۔ 


مقررین نے کہا کہ اس واقع کے ذمہ دار صرف بلوچستان کے وزیر عبدالرحمن کھیتران  نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ادارے ہیں ، اور ہم بے حس قوم کے ہر ظلم کے سامنے ذاتی مفادات کی خاطر خاموش ہیں ۔


انہوں نے کہا ہے کہ اگر گراں ناز و انکے بچوں کی قاتلوں کو گرفتار ودیگر کو بازیاب و ماحل بلوچ کو رہا نہیں کیا گیا تو بلوچ قوم کی نفرتیں اور جنم لیں گے ۔



اس دوران ضلعی جنرل سیکرٹری صدیق بلوچ نے ایک یاداشت پیش کی جس میں گرا ناز و انکے بچوں کی قاتل کی گرفتاری دیگر بچوں کی بازیابی بلوچ قوم کی ، بیٹی ماحل بلوچ کی فوری طور پر بازیابی لواحقین کو انصاف و دیگر کو جلسہ نے قبول کرلی ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post