خاران,، لاہور ،کراچی میں ماہل بلوچ جبری گمشدگی و بارکھان واقعہ پر احتجاج



بلوچ خاتون ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی و الزامات اور بارکھان واقعہ کے خلاف خاران،لاہور کراچی اور اوستہ محمد  میں شہریوں کی جانب سے ریلی نکال کر احتجاج ریکارڈ کرائی گئی-


اس موقع پر شرکاء نے ہاتھوں میں ماہل بلوچ اور بارکھان واقعہ میں قتل ہونے والے افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے- مظاہرین نے ماہل پر جھوٹے مقدمات کی اندراج اور بارکھان واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فورسز اداروں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی-


خاران مردوں کے ہمراہ خواتین مظاہرین کی بھی  احتجاج میں شامل تھی- مظاہرین نے ماہل بلوچ پر عائد جھوٹے کیسز کو خارج کرنے اور فوری بازیابی کا مطالبہ کیا-


ماہل بلوچ کی ماورائے قانون گرفتاری اور بارکھان واقعہ کے خلاف مختلف طلباء و سیاسی تنظیموں کی جانب سے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی تھی- مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ماہل بلوچ پر دائر مقدمات کو ختم کرکے انہیں فوری طور پر رہا کرے اور بلوچستان میں اجتماعی سزاء کے طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا عمل ترک کردیا جائے-


جبکہ مظاہرین نے بارکھان واقعہ میں شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے خان محمد مری اور انکے اہلخانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔



شال سے حراست کے بعد جبری گمشدگی کا شکار بلوچ خاتون ماہل بلوچ کی باحفاظت بازیابی و منظرعام پر لانے کے لئے مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے-


بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے پاکستان کے صوبہ پنجاپ کے دارالحکومت لاہور میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جہاں مظاہرین نے ماہل بلوچ کی فورسز کے ہاتھوں اغواء کے خلاف شدید نعرہ بازی کی اور انکی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا-


مظاہرین نے کہا کہ ماہل بلوچ کو فوری منظر عام پر لاکر رہا کیا جائے اور بلوچستان میں بلوچ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ انکے جبری گمشدہ لواحقین کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔


دریں اثنا سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پریس کلب کے سامنے عورت مارچ کی طرف سے بلوچ خواتین کے خلاف تشدد اور ماہل کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔


عورت مارچ کے رہنماؤں نے بلوچستان میں عورتوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔


اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء لاپتہ سمی دین بلوچ نے کہا کہ ماہل کی بیٹاں آج بھی ڈر اور خوف کے شکار ہیں، والدہ کو انکے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اب بچیاں والدہ کے بغیر سہمے ہوئے ہیں۔


اُنہوں نے کہا کہ ماہل کو فوری طور پر باعزت رہا کیا جائے۔


آپ کو معلوم ہے کہ  کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کے جانب سے ماہل بلوچ کی حراست میں لئے جانے کی تصدیق اور ضیاء لانگو کے دعووں کے باوجود عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکا ہے واقعہ کے خلاف بلوچ تنظیموں اور شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے جو خاتون کی منظرعام پر لانے کا مطالبہ کررہے ہیں-


ماہل بلوچ کی سی ٹی ڈی کی ہاتھوں جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گذشتہ روز ڈیرہ غازی خان اور اسلام آباد میں بھی مظاہرہ کیا گیا جبکہ کل شال میں احتجاجی ریلی نکالی جائیگی-


یاد رہے رواں ماہ 17 اور 18 فروری کی شب 11 بجے کے قریب بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے ایک خاتون ماھل بلوچ کو ان کے بچوں سمیت گھر سے حراست میں لے کر جبری گمشدگی کا شکار بناکر نامعلوم مقام منتقل کردیا تھا تاہم بعد میں عوامی احتجاج کے بعد کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ نے ماہل بلوچ کو تحزیب کاری کے الزام میں گرفتاری کی تصدیق کردی تھی-


واقعہ کے بعد صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئی کہا تھا کہ گرفتار ہونے والی خاتون ماہل بلوچ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں وہ اپنی صفائی پیش کریگی تاہم چھ روز گزر جانے کے باجود ماہل بلوچ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا ہے-


بلوچ خاتون ماہل بلوچ کے لواحقین اور بچیں شال وزیر اعلی سیکٹریٹ کے سامنے بارکھان واقعہ کے خلاف جاری دھرنے میں شریک ہیں اور ماہل کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں-


ماہل بلوچ کی ساس نے گذشتہ روز کوئٹہ میں بارکھان واقعہ کے جاری دھرنے سے ویڈیو بیان میں کہاہے کہ ہمیں دھمکی دی گئی کہ ماہل کی جبری گمشدگی کے واقعہ کو میڈیا کے سامنے نہیں لایا جائے پانچ دن گزرنے کے باوجود میری بہو ماہل بلوچ کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے-


انہوں نے کہا ماہل دو بچیوں کی ماں ہیں اسکی زندگی کو خطرہ لاحق ہیں۔ انھوں نے اپیل کی ہے کہ بہو کی بازیابی کیلے سیاسی تنظیمیں و انسانی حقوق کے کارکنان اپنی آواز بلند کریں.

Post a Comment

Previous Post Next Post