بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی کمیٹی کے ممبر آسیہ بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بْیان میں کہا کہ بلوچستان کے اندر پاکستانی فوج تسلسل کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے یہ پہلا بزرگ داد محمد کی لاش نہیں جو پاکستانی فوج نے کیمپ میں بھلا کر چار روز مسلسل جسمانی اور زہنی تشدد کرنے کے بعد انہیں شہید کر دیا، بلکہ یہ تسلسل پچھلے 70 سالوں سے جاری ہے لوگوں کو بلاوجہ فوجی کیمپس کے اندر بھلایا جاتا ہے، ان پر غیر انسانی تشدد کی جاتی ہے، اس کے علاوہ بلوچ نہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں نہ تعلیمی اداروں میں ہر جگہ بلوچ قوم کے نوجْوانوں، بزرگوں، خواتین اور بچوں کو اٹھاکر انہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے بْیان کے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں رونما ہونے والی اس غیر آئنیی، غیر قانونی و غیر انسانی سلوک کے خلاف بلوچ قوم ہر فورم پر آواز اٹھاتی رہی ہے۔ لیکن اس ملک کے اندر آئین اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں۔
بلوچوں کے حقوق کو پاکستانی سْیاسی اور عسکری قوتوں اور آفیسروں نے سلب کیا گیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ پاکستانی ریاست اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے بلکہ دن بہ دن بلوچ عورتوں، بچوں، مردوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو اٹھاکر انہیں حبس بے جا میں رکھ کر طرح طرح کی غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن بلوچ قوم پر ہونے والی اس غیر انسانی سلوک پر دیگر اقوام خاموش ہیں، انہیں یہ بات یاد رکھنا ہوگا یہ آگ صرف بلوچ اور بلوچستان پر نہیں بلکہ رفتہ رفتہ بتدریج یہ ان اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے گا جو آج ان غیر انسانی اور غیر آئینی عمل پر خاموش تماشائی ہیں۔