بلوچ جبری لاپتہ افراد و شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4939 ہوگئے۔
آج کیمپ میں پھلین بلوچ سمیت متعدد مرد خواتین نے کیمپ میں آ کر اظہار یکجہتی کی،
جبکہ کراچی سے جبری لاپتہ عبدالحمید زھری کی بیوی فاطمہ اور بیٹی سعیدہ حمید پانچ سالوں سے لاپتہ محمد آصف کی ہمشیرہ بی بی شیرین بھی بیٹھی رہیں۔ اس دوران انھوں نے ویڈیو پیغامات میں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلے اپیلیں کیں ۔
کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ سے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے بی بی شیرین بلوچ نے بتائی کہ انکے بھائی محمد آصف کو پانچ سال قبل بلدیہ ٹاون مہاجر کیمپ کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ، جس کے بعد سے وہ منظر عام پر نہیں آسکے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس دؤران اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے کیسز کراچی میں جمع کرائیں ، جبکہ لاپتہ افراد کے کمیشن اور جے آئی ٹی میں بھائی کی جبری گمشدگی کے تفصیلات جمع کرائے، لیکن اس تمام دؤرانیہ میں کہیں سے بھی انہیں کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا، اور نہ آج تک بتایا گیا ہے کہ انکے بھائی کو کس جرم میں لاپتہ کرکے کہاں رکھا گیا ہے-
ہمشیرہ کا کہنا تھا کہ محمد آصف گھر کا واحد کفیل ہے اور گھر کو سمبھالنے کے لئے کراچی میں محنت مزدوری کررہا تھا ،اگر اس پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرکے فری ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے-
بی بی شیرین بلوچ نے مزید کہا کہ میں اپنے بھائی کی باحفاظت بازیابی کے لئے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتی ہوں کے وہ اس معاملے میں اقدامات اُٹھائیں تاکہ محمد آصف کو انصاف مل سکے-
اس طرح لاپتہ عبدالحمید زھری کی بیٹی سعیدہ حمید نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اسکے والد کی جبری گمشدگی کو بائیس مہینے مکمل ہو گئے ہیں۔ لیکن اب تک اسکی کوئی خیر خبر ہمیں موصول نہیں ہوئی ہے، ہم اپیل کرتے ہیں کہ خدارا ہمارے والد کو جلد منظر عام پر لایا جائے ۔
کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ خواتین ہمارے معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور تحریکوں میں ان کا کردار اہم ہے ، ہمیں ان کے کردار کو پر امن جدوجہد کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہاکہ آج ہمارے مرد اگر تحریک کا ایک بازو ہیں تو دوسرا بازو خواتین ہیں ایسے سخت حالات میں بلوچ خواتین مختلف طریقوں سے پر امن جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں و بھائیوں کے ہمراہ جدوجہد کو آگے لے جاسکتی ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایسے حالات میں خواتین کی زیادہ ذمہداری بنتی ہے کہ وہ پیاروں کی بازیابی کے لئے سیاسی عمل کو آگے لے جائیں۔ دنیا آج سیاسی عمل کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ہم سیاسی میدان میں پر امن جدوجہد کو مضبوط کر کے دنیا پر یہ واضح کر دیں بلوچ خواتین کو گھروں میں قید نہیں رکھتے ، بلکہ ہماری خواتین پر امن جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی جدوجہد کر رہی ہیں۔
ماما نے کہاکہ بلوچستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ عام بلوچ کی ملکیت ہے اور ان بلوچ چرواہوں اور مزدوروں کی ملکیت ہے جنہوں نے اس کے لئے خون بہایا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ریاست بلوچستان نام نہاد قوم پرست حکومت تشکیل دینے کا شوشہ چھوڑنے والے بلوچ قوم پر ظلم بربریت، کی تاریخ رقم کرتے ہوئے دشمن کی صفوں میں اہم کارندوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
قابض ریاستی مراعات یافتہ قوم پرستوں کو بھی اپنے ڈاتی عارضی مفادات مراعات کی فکر دامن گیر ہو چکی ہے ، کیونکہ استحصالی نظام کے سائے تلے پرورش پانے والے استحصال سے پاک سماج میں بلوچ کا خون چوسنے کے مواقع کے فقدان کو بھانپ رہے ہیں۔ اسی لئے ریاست کے پیداکردہ سیاست اپنی ذاتی گروہی مفادات کی بقاء کے لئے کوشاں ہو کر قومی جرم کو انجام دیکر قوم دشمنی کی مثالیں قائم کر رہے ہیں -