ہمیں یہ کہہ کر مزید ٹارچر کیا جاتا ہے کہ آپ کے بھائی لاپتہ نہیں ہیں، سائرہ بلوچ


بلوچ جبری لاپتہ افراد اور بلوچ شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4912 دن ہوگئے .


اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پنجگور سے سیاسی سماجی کارکنان داد محمد، نور محمد بلوچ سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی.


کیمپ میں نوشکی سے جبری لاپتہ عبدالرشید بلوچ اور آصف بلوچ کی بہن سائرہ بلوچ دیگر لواحقین کے ساتھ بیٹھی رہیں ۔ 


سائرہ بلوچ نے  اس موقع پر اپنی ویڈیو پیغام میں کہا کہ ہم پچھلے پانچ سالوں سے اپنے بھائیوں کی بازیابی کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔


ا نھوں نے کہاکہ حکومتی قائم کردہ کمیشن، کورٹس اور جی آئی ٹی کے سامنے بھی پیش ہوتی رہی ہیں، ہمیں یہ کہہ کر مزید ٹارچر کیا جاتا ہے کہ  آپ کے بھائی لاپتہ نہیں ہیں، حالانکہ انکی جبری گمشدگی کے تمام ثبوت آن دی ریکارڈ موجود ہیں اور انکے ساتھ اٹھائے گئے دیگر لوگ بعد میں رہا بھی ہوچکے ہیں۔


 اس موقع پر  وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لی ہے، جس کی وجود نے آج اکیسوی صدی میں عالم انسان کی انسانیت و امن کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ 


انھوں نے کہاکہ  دسمبر کے مہینے میں بلوچوں کے لہو سے سرزمین کی آبیاری کی تاکہ مظلوم و محکوم اقوام کو زیر دست کیا جا سکے،  دسمبر 2022 بھی سراپا لہو لہان رہا جہاں ریاستی قابض فورسز نے اپنی نئی نام نہاد بلوچیت کے دعویدار خفیہ ادارے دیگر کرایہ کے نمائندوں کے ساتھ مل کر مقبوضہ بلوچستان میں خون کی ہولی کو ایسے کھیلا کہ دسمبر کے مہینے کا ہر دن ہر گھنٹہ ہر سیکنڈ لہو میں نہلایا گیا ،


نومبر دسمبر کے مہینے کا آغاز ریاستی فورسز نے بولان ہرنائی مستونگ ،قلات اور مکران کے مختلف علاقوں میں بلوچ فرزندوں کے جبری اغوا شہادتوں سے کیا، ایسے بھی نعشیں ملیں جن کی شناخت نہ ہو سکی۔ 


ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کے لیے وسیع عریض زمین تنگ کیا جاچکاہے ، فورسز  دشوار گزار علاقوں جہاں  کسی قسم کی سہولت نہیں ، اور  شہروں تک لوگوں کی  رسائی ممکن  نہیں  وہاں قتل کئے جاتے ہیں ،   ایسے درجنوں بلوچ فرزندو کی شہادتیں ،جبری گمشدگیاں فوجی  آپریشنز و ریاستی بربریت   دوران پیش آئے ہیں کہ صرف وہیں رہنے والے ہی جانتے ہیں یا وہی   زمین ہی جانتاہے کہ بربریت دوران کتنے بلوچ فرزندے اس کی  گود میں سلائے گئے ہیں ۔  


اسی لئے ابھی تک سو فیصد اور یقینی طور پر مکمل جامع دستاویز  سامنے نہ آ سکے ہیں کتنے شہید اور جبری لاپتہ ہیں ۔ جبکہ جو دستیاب معلومات  اکھٹے کی جا تی ہیں  ایک مشترک پلیٹ فارم اور نظم وضبط  نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اپنے حوالے سے مرتب کردہ اعدادوشمار کو شائع کرتا ہے ۔


انہوں نے کہا کہ روزانہ  مقبوضہ بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے بلوچ قوم کے لیے آرام آسودگی صرف فرزندو کی بازیابی کی سورج کی طلوع ہونے کے ساتھ ہی آتی ہے،


 مگر باہمت بلوچ مائیں بہنیں آج بھی اپنے فرزندو کی شہادتوں اغوا پر ذرہ بھی نالاں نہیں۔ 


انھوں نے کہاکہ چائے مسلمانوں کا کوئی بھی تہوار  ہو  بلوچ مائیں بہنے تہوار منانے کے بجائے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلے  سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتی ہیں ۔ اور لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود  رہ کر دنیا کو پاکستانی ریاست کے ظلم جبر سے آگاہ کرنے میں پیش پیش نذر آتی ہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post