پاکستان نے بلوچستان کو پسماندہ رکھا ہوا ہے، جہاں معاشی، تعلیمی، سماجی و معاشرتی ترقی کے تمام دروازے بند نظر آتے ہیں. پریس کانفرنس


تربت : اسٹوڈنٹس الائنس تربت کے زیر اہتمام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طلباء نے کہا ہے کہ آج ہم بہ حیثیت طلبہ تنظیموں کا مشترکہ الائنس کے زمہ دار طالبعلم آپ سب کے سامنے ایک ایسے سنگین قومی و اجتماعی مسئلے کو پیش کرنے کیلئے موجود ہیں جس نے تربت سمیت مکران کے بیشتر علاقوں کے غریب طلبا و طالبات کو اپنی گرفت میں جھکڑا ہوا ہے۔ 


انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے  بلوچستان  کو پسماندہ رکھا ہوا ہے،  جہاں معاشی، تعلیمی، سماجی و معاشرتی ترقی کے تمام دروازے بند نظر آتے ہیں۔ یہاں   کے بیشتر باشندے معاشی پسماندگی و تنگدستی کے ہاتھوں اتنے جھکڑے ہوۓ ہیں کہ تعلیم جیسے زیور سے بھی مجبوراً ہاتھ دھو کر بیٹھ گئے ہیں۔


اس معاشی اتار چڑاؤ کے پیش نظر اس سرزمین کے وارث اپنے بچے اور بچیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے دوسرے بڑے شہروں میں بھیجنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بیشتر والدین اپنے بچوں کو یا تو کسی مقامی جامعہ میں داخلہ دلواتے ہیں یا بیرون ملک بھیج دیتے ہیں تا کہ مالی بحران سے چٹکارہ پاسکیں۔


لیکن مقامی جامعات میں فیسوں کی حد درجہ اضافے سے تعلیمی معاملات زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ اگر اس مسئلے کو فوری طور پر حل نہ کیا جائے تو آنے والے وقتوں میں تعلیم کی شرح مزید گر سکتی ہے۔



انھوں نے کہاکہ کچھ وقت پہلے  جامعہ تربت کے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے اسپرنگ سیمسٹر 2023 سے نئے فیس اسٹرکچر کا اجرا کیا ہے ،  جس میں سیمسٹر فیس، ہاٹل فیس اور آمد ورفت فیس شامل 

  ہیں۔ پہلے کی نسبت سیمسٹر فیس میں کیچ ڈیپارٹمنوں میں چار سے پانچ ہزار اور کیچ ڈیپارٹمنٹوں میں نو سے دس ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے ، جب کہ ہاسٹل فیس ایک ہزار سے بڑھا کر پانچ ہزار (ایک دفعہ ) اور دو ہزار فی سیمسٹر کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب آمد و رفت کی فیس جو پچھلے کئی وقتوں سے 250تھی، اسے بڑھا کر چار اور پانچ ہزار فی سیمسٹر کر دی گئی ہے۔ 


انھوں نے کہاکہ  سوشل سائنسز کے ڈیپارٹمنٹس میں لیبارٹری فیس لینا بھی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ان ڈیپارٹمٹس میں لیب ورک نہیں ہوتا۔ اس حساب سے اب ہر طلبا کو پہلے کی نسبت آٹھ سے دس ہزار اضافی فیس جمع کرنا ہو گا جو کہ غریب طالبعلموں کے منہ پر تمانچے کی مانند ہے۔


انھوں نے کہاکہ  تربت میں متحرک طلبا تنظیموں کے زونز یعنی بلوچ اسٹوڈنٹس ایکش کمیٹی تربت زون، بلوچ اسٹوڈنٹس

آرگنائزیشن پجار تربت زون اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون نے مشترکہ فیصلہ کرتے ہوۓ ایک الائنس سٹورنٹس الائنس تربت کے نام سے تشکیل دی ہے ، جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کی سب سے اہم ترین شہر تربت کو تعلیمی بحران سے چھٹکارہ دلا سکے۔


طلباء نے کہاکہ ہم نے کل اپنی ایک وفد جامعہ تربت کے رجسٹرار اور وائس چانسلر سے ملاقات کے سلسلے میں بھیج دیا تھا ، جسکا بنیادی مقصد اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کو پیش کرنااور مطالبات کی منظوری کے بعد تعلیمی راہ سے معاشی رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔


لیکن پرو وائس چانسلر نے ہمارے تمام مطالبات کو ایچ ای سی کی طرف سے فنڈز میں کمی، مہنگائی اور مالی بحران کا بہانہ بنا کر ماننے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ ہمارے جائز مطالبات یہ ہیں کہ سیمسٹر فیس میں اضافے کی جگہ پچھلی فیس اسٹریکچر کو دوام بخشا جاۓ، ہاسٹل فیس ایک ہزار سے زائد نہ کیے جائیں، آمد و رفت کی فیس جو فیس اسٹریکچر میں 0 اسٹریچر میں 250 ہے، اسے بڑھایا نہ جاۓ، ہاسٹل کے طالبات کیلئے جاری کردہ حلفیہ بیان کی شکوں میں ترامیم کیا جاۓ اور نیچرل اور بیک سائنسز کے ڈیپارٹمنٹس کے علاوہ باقی تمام ڈیپارٹمنٹس میں لیب فیس

کا خاتمہ کیا جاۓ۔ 


انھوں نے کہاکہ آج ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے جامعہ تربت کے انتظامیہ کو چار دن کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے جائز مطالبات کو قبول کر دیں ، بصورت دیگر ہم سخت سے سخت اقدامات کی جانب بھی جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تمام طلبہ و طالبات، صحافی حضرات اور تمام مکاتب فکر افراد سے گزارش کرتے ہیں وہ ہماری آواز بنیں تاکہ ہم اپنے تعلیمی کیرئیر کو معاشی پسمند گی کی بھینٹ نہ چڑھنے  نہ    دیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post