بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ بلوچ طلبا اس دور میں پُرکٹھن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچ طلبا کو اداروں کے اندر ہراساں کرنا اور ان کو ذہنی کوفت کا شکار بنانا ریاستی اداروں کا شیوہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے آۓ روز بلوچ طُلباء کی اغوا نما جبری گمشدگیاں، ہراسانی اور ریاستی تذبذب نے ان کو نفسْیاتی بیماریوں کا شکار بنا دیا ہے نہ وہ چین سے پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی تدریسی عمل کو آگے لے جاسکتے ہیں۔ ایسا کوئی دن نہیں کہ کوئی بلوچ طالب علم ان سنگین مسائل سے دوچار نہیں ہوتا۔
انکا کہنا تھا کہ کل سرگودھا یونیورسٹی کے طالب علم سراج نور جوکہ ایل ایل بی کے طالب علم ہیں جو اپنے آبائی گاؤں خضدار گریشہ چھٹیاں گزارنے گیا تھا ان کو وہاں سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ،ان کے ساتھ ان کے دوست محمد عارف جنہوں نے رواں سال بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے مکمل کی ہے، دونوں تاریک زندانوں اور ازیت گاہوں میں بند کی گئی ہے اور تاحال لاپتہ ہیں۔
اسی طرح گزشتہ دنوں نادل بلوچ کو تُربَت بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار بناگیا ہے ۔ اگر ان تمام حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئِے دیکھیں تو سچائی عیاں ہوجاتی ہیکہ بلوچ طلباء کو درس و تدریس اور تعلیمی سرگرمیوں سے محروم رکھ کر ان کیلئِے تمام تعلیمی راستے بند کرنا اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ہے ، جو کہ ایک المناک غیر انسانی عمل ہے ۔
ترجمان نے اپنے بْیان کے آخر میں کہاکہ ہم اعلیٰ اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ طلباء پر ہونے والے ان تمام غیر انسانی سنگین عوامل کا نوٹس لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ بن چکا ہے ، جہاں سب سے زیادہ متاثر طبقہ طالب علم ہیں وہاں تعلیمی اداروں کی محرومیت و معدومیت کے سبب وہ پنجاب و فاق کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ یہاں وہ چین سے پڑھ سکیں اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں لیکن یہاں بھی وہی صورت حال پیدا کی گئی ہے۔